کتاب: محدث شمارہ 313 - صفحہ 10
تدریجی کوشش کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ البتہ برائی کے وقوع کے بعد اس کی سزا دینا ہیئت ِمقتدرہ کا کام ہے۔ قانون کوہاتھ میں لینے کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔ چنانچہ اگر کسی جگہ بدکاری یا چوری کا ارتکاب ہورہا ہو تو اس سے اُس وقت مرتکبین کو روکنے کی ہرممکنہ کوشش کرنا نہی عن المنکرکا تقاضا ہے، لیکن وقوع کے بعد زانی یا چور کو اغوا یا قید کرکے سزا دینا گویا قانون کو ہاتھ میں لینا ہے جس کی کسی عام آدمی کو اجازت نہیں ہے۔
2. نہی عن المنکر میں یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہئے کہ وہ روکنے والے کی استطاعت میں ہو، اگر روکنے کا نتیجہ اس سے بڑے منکر کی شکل میں برآمد ہوتا ہے تو ایسی شکل میں نہی عن المنکر کے دیگر مراحل مثلاً زبان سے کہہ دینا یا دل سے برا جاننے وغیرہ پر عمل کرنا چاہئے۔ اس موضوع پرائمہ اَسلاف کا موقف اورتفصیلی بحث ’محدث‘ کے شمارہ مئی میں گزر چکی ہے۔
دینی اداروں اور تحریکوں کو اسلامی تعلیمات اور موجودہ حالات وواقعات سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے اسی طریقہ کار کو اپنانا چاہئے جس کی نشاندہی اسلام نے کی ہے۔ اسلام ہی ہمارا سرمایۂ حیات ہے اورہر وہ عمل جو اس کی حدود سے متجاوز ہو، اس سے ہرصورت ہمیں بچنا چاہئے۔ اس وقت شدید ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم دانشور اُن مناسب طریقوں کی نشاندہی کریں جن کے ذریعے دینی مشن کو باحسن طریق ادا کیا جاسکتا ہے۔
ہم پر ان حالات میں دینی لحاظ سے کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے، مساجد ومدارس کے طلبہ کن رہنما خطوط کو اپنے سامنے رکھ کر اپنے کام کو مثبت بنیادوں پر توسیع دے سکتے ہیں ، یہ رہنمائی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ماضی میں اس حوالے سے ۳۱ معتمد علما کے ۲۲ نکات، دستوری جدوجہد، قانون کی اسلامائزیشن کے مراحل، ذرائع ابلاغ پر اپنے موقف کو احسن انداز میں پہنچانا، پاکستانی عوام کو خطباتِ جمعہ اور دیگر تقاریر کے ذریعے دینی تصورات اور تقاضوں سے اچھے انداز میں آگاہ کرنا، تبلیغ ودعوت کے تمام ذرائع اختیا رکرنا، رجوع الیٰ القرآن والسنہ کی تحریک اور قرآن وسنت کی تعلیم کو زیادہ سے زیادہ عام کرنا وغیرہ وہ اسالیب ہیں جن پر علماے کرام عرصۂ دراز سے کاربند چلے آرہے ہیں ، ان سے اگر مکمل نتائج حاصل نہیں بھی ہوئے تو بہر حال معاشرے میں دینی روایات واقدار کوایک عظیم تحفظ ضرور حاصل ہوا ہے جس کی واضح شہادت پاکستانی معاشرے کی اُن دیگر مسلم معاشروں سے واضح فرق میں