کتاب: محدث شمارہ 310 - صفحہ 9
ہوتا ہے یعنی دعوت کا مقصد پیغام رسانی اور ترغیب وترہیب ہوتا ہے جبکہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا مقصد بھلائی کا فروغ اور برائی کو مٹانا ہے۔ علاوہ ازیں امر بالمعروف و نہی عن المنکر میں نفاذِ شریعت کی مساعی بھی شامل ہیں ، اس لیے ہر دو اصطلاحات میں اس اعتبار سے فرق ہے جبکہ جناب جاوید احمد غامدی صاحب نے اپنے ایک غلط فلسفے کوسیدھا کرنے کے لیے قرآنی آیات کی من مانی تاویلات کرتے ہوئے دعوت (جسے وہ تواصی بالحق بھی کہتے ہیں ) اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فریضے کو بالکل ایک ہی بنا دیا۔ جناب غامدی لکھتے ہیں :
’’ایک دوسرے کو حق اور حق پر ثابت قدمی کی یہی نصیحت ہے جسے قرآن مجید نے بعض دوسرے مقامات پر ’امر بالمعروف ‘اور ’نہی عن منکر‘سے تعبیر کیا ہے ۔یعنی عقل و فطرت کی رو سے جو باتیں اچھی ہیں ، ان کی تلقین کی جائے اور جو بری ہیں ، ان سے لوگوں کو روکا جائے۔ یہ درحقیقت منفی ومثبت،دونوں پہلوؤں سے ’تواصی بالحق‘ ہی کا بیان ہے۔ ارشادفرمایا: وَالْمُؤمِنُوْنَ وَالْمُؤمِنَاتُ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَائُ بَعْضٍ یَاْمُرُوْنَ بِالْمُعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ‘‘
غامدی صاحب نے اس آیت کی من مانی تاویل کرتے ہوئے اس آیت میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے مراد ’تواصی بالحق‘ لیا ہے جس کی کوئی دلیل سلف صالحین تو کجا کسی عربی لغت یا غامدی صاحب کی عربی معلی میں بھی نہیں ملتی۔ غامدی صاحب کو چاہیے تھا کہ وہ اس آیت کے ظاہری الفاظ امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے ’تواصی بالحق‘ مراد لینے کے لیے اپنی عربی معلی سے کوئی عربی شعر ہی بطورِاستشہادپیش کر دیتے تاکہ ہم غامدی صاحب کی اس تاویل کو کم از کم ’من مانی تاویل‘ تونہ کہہ سکتے۔
’تواصی بالحق‘ درحقیقت حق بات کی زور دار وعظ ونصیحت کو کہتے ہیں جبکہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر حق بات کی وعظ ونصیحت سے بڑھ کر اس کے لئے کچھ اقدامات کرنے کی بحث ہے۔ خود امر اور نہی کے الفاظ میں یہ بات بیان ہوئی ہے۔ ان اصطلاحات میں نفاذکا مفہوم بھی شامل ہے۔ ا س لئے تغییر (منکرکومعروف سے بدلنا) چاہے باللسان ہو یا بالید، یہ نہی عن المنکر کا موضوع تو ہوسکتا ہے لیکن تواصی بالحق کا موضوع ہرگزنہیں ہے۔