کتاب: محدث شمارہ 310 - صفحہ 85
حاصل کیا کہ جماعت ِاسلامی سے وابستگی کی بنا پر مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی متعدد کتابوں کو عربی جامہ پہنا کر عالم عرب میں روشناس کرایا۔ گو اپنے پیشے سے وابستہ نہ رہے لیکن اس نسبت کو الحدّاد کے لاحقے کے ساتھ وفات تک گلے لگائے رکھا۔ اللہم اغفرلہ وارحمہ! فسادات کے وقت مسلمانوں کے قافلے اس ریاست میں پڑاؤ ڈالتے، پٹیالہ اورنابہہ سے لٹے پٹے قافلے اس حالت میں مالیر کوٹلہ پہنچتے کہ ایک قافلہ جو چلتے وقت پانچ ہزار نفوس پر مشتمل تھا، مالیرکوٹلہ پہنچتے پہنچتے پانچ سو افراد کارہ گیا۔ مکئی کی فصل کھڑی تھی،دردمند حضرات اُسی کا دلیہ بنا کر مہاجرین میں تقسیم کرتے۔ مذکورہ قافلہ میں چند مسلح ریٹائرڈ فوجی بھی تھے، اس لئے سکھوں کو سامنے سے حملہ کرنے کی جرأت نہیں ہوئی بلکہ نہر کا ایک پل بیل گاڑیوں سے بند کرکے اچانک دائیں بائیں اور پیچھے سے حملہ کیا، اکثر شہید ہوئے، کچھ نہر میں ڈوبے اور بہت کم اپنی جان بچا سکے۔ والد صاحب بتاتے ہیں کہ نفسانفسی کا یہ عالم تھاکہ لوگ عارضی کیمپوں میں ریل گاڑی یا بس کی روانگی کے منتظر رہتے۔ جونہی ٹرین کے کوچ کرجانے کا اعلان ہوا، لوگ بھاگم بھاگ اسٹیشن پہنچے۔ ابا جان نے ایک کیمپ میں ایک معصوم بچے کودیکھا جو اپنی مختصر زندگی کے آخری سانس لے رہا تھا۔ اس کے والدین اسے اسی حالت میں چھوڑ کر جاچکے تھے، گویا نقشہ تھا یومِ قیامت کا: ﴿یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْئُ مِنْ اَخِیْہِ وَاُمِّہٖ وَاَبِیْہِ وَصَاحِبَتِہٖ وَبَنِیْہِ لِکُلِّ امْرِیٍٔ مِنْھُمْ یَوْمَئِذٍ شَاْنٌُ یُّغْنِیْہِ﴾ ابا جان نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس غریب الدیار معصوم کو کفنایا اور دفنایا۔ ہم نے مئی ۱۹۴۸ء میں ہجرت کا عزم کیا۔ ٹرین کے اُس سفر کی چند یادیں آسمان پر بجلی چمکنے کے مختصر وقفہ کی مانند لوحِ دماغ پر ہتھوڑے برسا رہی ہیں ، جو ہم نے اٹاری تک کیاتھا۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس گاڑی پرکوئی شب خون نہیں مارا گیا۔ کچھ ڈبوں میں لوٹ مار ہوئی اور خواتین کازیور اور مردوں کا روپیہ پیسہ چھیناگیا۔اٹاری سے ایک مال گاڑی کے کھلے ڈبوں میں سازوسامان کے ساتھ واہگہ ہوتے ہوئے لاہور پہنچے۔ اباجان بتاتے ہیں کہ گاڑی لاہوراسٹیشن پر رُکے بغیر والٹن چلی گئی، جہاں مہاجرین ہزاروں کی تعدادمیں کیمپوں میں پڑے کسمپرسی کاشکار تھے۔ اس پر مستزاد یہ کہ ہیضہ پھوٹ چکاتھا، اس لئے عافیت اسی میں سمجھی گئی کہ گاڑی سے نہ اُترا جائے