کتاب: محدث شمارہ 310 - صفحہ 7
ہیں ۔جناب غامدی صاحب لکھتے ہیں : ’ ’قرآن کی دعوت اس کے پیش نظرجن مقدمات سے شروع ہوتی ہے، وہ یہ ہیں : 1. دین فطرت کے حقائق 2. سنت ابراہیمی 3. نبیوں کے صحائف پہلی چیز کو وہ اپنی اصطلاح میں معروف و منکر سے تعبیر کرتا ہے ۔یعنی وہ باتیں جو انسانی فطرت میں خیر کی حیثیت سے پہچانی جاتی ہیں اور وہ جس سے فطرت ابا کرتی اور اُنہیں برا سمجھتی ہے۔ قرآن ان کی کوئی جامع مانع فہرست پیش نہیں کرتابلکہ اس حقیقت کو مان کرکہ انسان ابتدا ہی سے معروف و منکر،دونوں کو پورے شعور کے ساتھ بالکل الگ الگ پہنچانتا ہے، اس سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ معروف کو اپنائے اور منکر کو چھوڑ دے ﴿وَالْمُؤمِنُوْنَ وَالْمُؤمِنَاتُ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَائُ بَعْضٍ یَاْمُرُوْنَ بَالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ﴾اور مؤمن مرد اور مؤمن عورتیں ،یہ ایک دوسرے کے رفیق ہیں ۔ یہ باہم دگر معروف کی نصیحت کرتے ہیں اور منکر سے روکتے ہیں ۔ اس معاملے میں اگر کسی جگہ اختلاف ہو تو زمانۂ رسالت کے اہل عرب کا رجحان فیصلہ کن ہو گا۔‘‘ (میزان:ص ۴۸،۴۹) ہماراسوال یہ ہے کہ اگر معروف و منکر شریعت کا موضوع نہیں ہے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کا کیا مطلب ہے ؟ من رأی منکم منکرًا فلیغیرہ بیدہ فان لم یستطع فبلسانہ فان لم یستطع فبقلبہ (صحیح مسلم:کتاب الایمان،باب کون النہی عن المنکرمن الایمان) ’’جو بھی تم میں سے کسی منکر کو دیکھے تو اسے چاہیے کہ وہ اسے اپنے ہاتھ سے تبدیل کر دی۔ اگر اس کی استطاعت نہیں رکھتا تو اپنی زبان سے اور اگر اس کی بھی استطاعت نہیں رکھتا تو اپنے دل سے۔‘‘ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم منکر کو ہاتھ سے روکنے کا حکم دے رہے ہیں ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت نے منکرات کا تعین کر دیا ہے۔ اگرغامدی صاحب کا یہ نظریہ مان لیا جائے کہ معروف اور منکر کا تعین فطرتِ انسانی سے ہوگا تو شریعت ِاسلامیہ ایک کھیل تماشہ بن جائے گی۔ ایک شخص کے نزدیک ایک فعل معروف٭ ہو گا جبکہ دوسرے کے نزدیک وہی فعل منکر ہو گا۔مثلاً غامدی صاحب کے نزدیک رقص و سرود معروف کے تحت آئے گا۔اب غامدی صاحب کو قرآن کا یہ حکم ہے کہ وہ امر بالمعرو ف کا فریضہ سر انجام دیں یعنی لو گوں کورقص و سرود انجام