کتاب: محدث شمارہ 310 - صفحہ 6
قراردیا ہو اور اس کو ناپسند کیا ہو تو وہ منکر ہے۔ ‘‘
٭ علامہ صاوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
المعروف المراد بہ ما طلبہ الشارع ۔۔۔ المنکر ما نھی عنہ الشارع
’’معروف سے مراد ہر وہ چیز ہے کہ جس کا شریعت نے مطالبہ کیا ہو۔۔۔اور منکر سے مراد ہر وہ چیز ہے جس سے شارع نے منع کیاہو۔‘‘
(حاشیۃ الصاوی علیٰ تفسیر الجلالین:جلد۱/ص۱۵۲)
٭ حدادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
المعروف ھو السنۃ والمنکر ھو البدعۃ (روح البیان:جلد۱/ ص۹۵۹بحوالہ معروف منکر :ص۹۶)
’’معروف سے مراد سنت ہے جبکہ منکر سے مراد بدعت ہے ۔‘‘
٭ امام راغب فرماتے ہیں :
المعروف اسم لکل فعل یعرف بالعقل أو الشرع حسنہ والمنکر ما ینکر بھما (مفردات :ص۳۳۱)
’’ معروف سے مراد ہر وہ فعل ہے جس کا اچھا ہونا عقل سے معلوم ہو یا شریعت اس کو اچھا کہے اور منکر وہ جسے عقل اور شریعت دونوں ناپسندکرتے ہوں۔‘‘
ہم یہ بات پہلے بیان کر چکے ہیں کہ جس کو ہماری شریعت نے معروف کہا ہے، اس کو عقل صحیح اور فطرتِ سلیمہ پر مشتمل مسلم معاشرہ بھی معروف کہتا ہے اور جس کوہماری شریعت نے منکر کہا ہے، اس کو عقل صحیح اور فطرتِ سلیمہ پر مشتمل مسلم معاشرہ بھی منکر کہتا ہے۔ اس لیے امام راغب رحمۃ اللہ علیہ نے معروف و منکر کی تعریف میں عقل صحیح کو بھی داخل کر دیا۔
غامدی صاحب کے نزدیک معروف ومنکر کا مفہوم اور اس کا تعین
اہل سنت کے ہاں معروف و منکر کا یہی صحیح مفہوم ہے جس کا تذکرہ ہم اوپر کر چکے ہیں جبکہ میڈیا کے معروف دانشور جناب جاوید احمد غامدی صاحب اہل سنت کے اس تصو ر کو نہیں مانتے۔ان کے نزدیک معروف و منکر شریعت کانہیں بلکہ فطرتِ انسانی کاموضوع ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ اس بات کا تعین کہ یہ معروف ہے اور یہ منکر،اس کو اللہ تعالیٰ نے فطرتِ انسانی پر چھوڑ دیا یعنی وحی یا ہماری شریعت میں یہ رہنمائی موجود نہیں ہے کہ یہ معروفات اور یہ منکرات