کتاب: محدث شمارہ 310 - صفحہ 56
ہوئی ہے اور نہ ندرتِ نگاہ۔ ان کے پاس وہی فرسودہ مال ہوتا ہے جو ہمارے ہاں صدیوں سے چلا آرہا ہے۔‘‘ اگر مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ اشتراکیت سے اقتصادی نظام کی بھیک مانگ کر اور مغرب کے حیا سوز تمدن سے معاشرتی طور طریقوں کی خیرات لے کرقرآنی کشکول میں پیش کر ڈالتے تو یقینا اُن کا یہ عمل اس بات کا ثبوت قرار پاتا کہ اُنہیں ’جدتِ فکر‘ بھی نصیب ہوئی ہے اور ’ندرتِ نگاہ‘ بھی۔ چونکہ دورِ حاضر میں گداگر کاکردار ادا کرتے ہوئے غیروں کی ذہنی غلامی اور فکری اسیری میں مبتلا ہوکر خود ’مفکر ِقرآن‘ نے جو کچھ پیش کیا ہے، وہ ان کی ’جدتِ فکر اور ندرتِ نگاہ‘ کی بھی دلیل ہے، اس لئے وہ ’مُـلَّا کے اسلام پر‘ ایک اعتراض یہ بھی کرتے ہیں کہ ’’ہمارا قدامت پرست طبقہ جو کچھ مذہب کے نام پر پیش کرتا ہے، اس میں اس کی صلاحیت ہی نہیں کہ وہ علم و بصیرت کی کسوٹی پر پورا اُترے اور عقل و فکر کے تقاضوں کو پورا کرسکے۔‘‘ اب ظاہر ہے کہ جس ’مفکر ِقرآن‘ کی __جان بھی گروِ غیر، بدن بھی گروِ غیر ہو__ دل ودماغ بھی اغیار کی فکری غلامی میں اس حد تک مبتلا ہو کہ وہ اگر دیکھتا بھی ہے تو اَغیار کی آنکھوں سے، سنتا بھی ہے تو ان کے کانوں سے، سوچتا بھی ہے تو ان کے دماغ سے۔ وہ غالب اقوام کے ہر نظریہ، مسلک یا نظام کو عرشِ مُعلّٰی سے نازل شدہ سمجھتا ہے اور اس کی تقلید کو اپنے لئے موجب ہزار فخر و مباہات قرار دیتا ہے اور تہذیب ِغالب کے علمبردار جب اپنی چچوڑی ہوئی ہڈیاں اس کی طرف پھینکتے ہیں تو وہ اُنہیں لپک کر اُٹھاتا اور خوانِ نعمت سمجھتا ہے۔ پھر جب ان کی اندھی تقلیدمیں ، ان ہی کی معاشرتی عادات و اطوار کو اشتراکیت کے اقتصادی نظام کے ساتھ پیوند کاری کرتے ہوئے پیش کرتا ہے تو وہ اس پر پھولے نہیں سماتا کہ اس کا پیش کردہ ’قرآنی اسلام‘ علم و بصیرت کی کسوٹی پر پورا اُترتا ہے اور ’عقل و فکر کے تقاضوں کوبھی پورا کرتا ‘ ہے اور اس پر مطمئن اور آسودہ خاطر ہوجاتا ہے کہ اس کی اس حرکت سے ماشاء اللہ نئی نسل کو ’قرآن کی تعبیر نو‘ کا حق بھی حاصل ہوجاتا ہے۔