کتاب: محدث شمارہ 310 - صفحہ 54
’’ازمنہ متوسطہ میں ایک اندازِ حکومت ظہور میں آیا تھا جسے تھیاکریسی کہتے ہیں ۔ اس طرزِ حکومت میں اقتدارِ اعلیٰ مذہبی پیشواؤں کے ہاتھ میں رہتا تھا جو خدا کے نام پر لوگوں سے اپنی اطاعت کراتے تھے۔ جب یورپ ان خدائی فوجداروں سے تنگ آگیا تو وہاں (اس طرزِ حکومت کے خلاف) ایک جدید اندازِ حکومت وضع ہوا جس میں مذہبی پیشواؤں کا عمل دخل نہ تھا۔ اس اندازِ حکومت کوسیکولر کی اصطلاح سے تعبیر کیا گیا ۔‘‘ عیسائیت سے قبل یہودیت میں بھی یہ تصور موجو تھا۔ چنانچہ پرویز صاحب لکھتے ہیں : ’’سامی مذاہب میں مُـلَّا ازم یہودیت ہی کی تخلیق ہے۔‘‘ طلوعِ اسلام، جون ۱۹۶۶ء کے صفحہ نمبر ۱۰ پر واقع اقتباس میں اس تصور کو ہندومت کا تصور بھی قرار دیا گیا ہے، جیسا کہ آگے چل کر واضح ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ ’مفکر ِقرآن‘ صاحب کو ’ملا ازم‘،’مذہبی پیشوائیت‘، ’تھیاکریسی‘ یا ’پریسٹ ہڈ‘ کا یہ کھوٹا سکہ اَدیانِ باطلہ سے لے کر بازارِ اسلام میں کیوں لانا پڑا؟ اس سوال پر آپ جتنا بھی غور فرمائیں گے، اسی قدر آپ پر یہ حقیقت نمایاں ہوتی چلی جائے گی کہ ’مفکر ِقرآن‘ صاحب کے تصورِ اسلام اور علماے اُمت کے تصورِ اسلام میں مشرق و مغرب کا سا بعد پایا جاتا ہے۔ علماے کرام کا تصورِ اسلام، قرآن وسنت پر مبنی ہے اور محمد رسول اللّٰه والذین معہ کے عہد ِمبارک سے لے کر اب تک سلف وخلف اسی امر پر متفق و متحد رہے ہیں کہ اسلام کا سرچشمہ قرآن و حدیث (کتاب و سنت )ہیں لیکن ہمارے ’مفکر قرآن‘ صاحب کا تصورِ اسلام پاکستان بن جانے کے بعد صرف اورصرف قرآنِ کریم پر ہی اساس پذیر ہے۔ پھر اس پر یہ ستم ظریفی بھی مستزاد ہے کہ قرآن کا نام لے کر وہ جس ’انقلابی اسلام‘ کو پیش کرتے ہیں ، اس کے جملہ اجزا یا تو مغرب کی بے حیا معاشرت میں پائے جاتے ہیں یا پھر اشتراکیت کے معاشی نظام میں ۔ مثال کے طور پر وہ جس قرآنی نظام کی طرف دعوت دیتے ہیں ، اس کے نمایاں خد و خال مندرجہ ذیل ہیں : 1. حجاب و نقاب کی مخالفت کرنا 2. تعددِ ازواج کو معیوب قرار دینا