کتاب: محدث شمارہ 310 - صفحہ 48
اس میں علی بن عبد اللہ بن مبارک صنعانی نامعلوم ہے۔ دوسرے یہ کہ اس حکایت کی سند میں ارسال یعنی انقطاع ہے۔اور منقطع روایت مردود ہوتی ہے۔
٭ ایک اور روایت میں آیا ہے کہ عبدالرزاق نے سید نا معاویہ کے بارے میں کہا: ’’ہماری مجلس کو ابو سفیان کے بیٹے کے ذکر سے خراب نہ کرو۔‘‘لیکن اس کی سند میں احمد بن زکیرحضرمی اور محمد بن اسحق بن یزید بصری دونوں نامعلوم ہیں ۔
٭ ایک روایت میں آیا ہے کہ امام سفیان بن عیینہ نے عبدالرزاق کو ﴿ اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُھُمْ فِیْ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا﴾ میں سے قرار دیا۔اس میں احمد بن محمود الہروی نامعلوم ہے۔ مختصر یہ کہ یہ سب روایا ت مردود اور بشرطِ صحت منسوخ ہیں ۔
4. امام عبد الرزاق کی روایت پر جرح دوطرح سے ہے :
اوّل: ابو حاتم رازی نے عبدالرزاق اور معمر دونوں کو کثیر الخطأ کہا۔
یہ جرح جمہور کے مقابلے میں ہونے کی وجہ سے مردود ہے ۔ ابو حاتم نے کہا: یکتب حدیثہ ولا یحتج بہ اس جرح کا سقوط مخالفت ِ جمہور سے ظاہرہے
دوم : ایک روایت میں آیا ہے کہ عباس بن عبدالعظیم نے عبدالرزاق کو ’کذاب‘ کہا۔ک لیکن اس روایت کا راوی محمد بن احمد بن حماد الدولابی بذاتِ خود ضعیف ہے۔ لہٰذا یہ روایت مردود ہے ۔
ایک روایت میں آیا ہے کہ زید بن مبارک نے کہا : ’’عبدالرزاق کذاب یسرق‘‘
اس روایت میں ابن عساکر کا استاد ابو عبداللہ بلخی غیر متعین ہے۔ اگر یہ روایت ثابت بھی ہوجائے تو دو وجہ سے مردود ہے :