کتاب: محدث شمارہ 310 - صفحہ 4
’’بعض اہل علم نے معروف کی تفسیر توحید سے اور منکر کی تفسیر کفر سے کی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ توحید معروف کی بنیادہے اور کفر منکر کی جڑ ہے۔ لیکن بظاہر الفاظ میں عموم ہے، لہٰذا معروف سے مراد ہر وہ شے ہے جس کا ہماری شریعت میں حکم دیا گیا ہے اور منکر سے مراد ہر وہشے ہے کہ جس سے ہماری شریعت میں منع کیا گیا ہے۔‘‘ (البحر المحیط؛ آلِ عمران:۱۰۴) ٭ امام ابو بکر جصاص رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : المعروف ھو أمر اللّٰه ۔۔۔ والمنکر ھو ما نہی اللّٰه عنہ (احکام القرآن؛ سورۃ آلِ عمران، باب فرض الامر بالمعروف) ’’معروف سے مراد اللہ کا حکم ہے ۔۔۔جبکہ منکر سے مراد ہر وہ شے کہ جس اللہ نے منع کیا ہو۔‘‘ ٭ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : والمتبادر من المعروف الطاعات ومن المنکر المعاصي التي أنکرھا الشرع (روح المعانی؛ سورۃ آل عمران:۱۱۰) ’’بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ معروف میں تمام اطاعتیں شامل ہیں اور منکر سے مراد وہ تمام معاصی ہیں جن کو شریعت نے نا پسند سمجھاہے۔ ‘‘ ٭ علامہ ابن حجر ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : المراد بالأمر بالمعروف والنہي عن المنکر: الأمر بواجبات الشرع والنہي عن محرماتہ (الزواجر:جلد۳/ص۱۶۱) ’’امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے مراد ان چیزوں کا حکم کرنا ہے جن کو شریعت نے واجب قرار دیا ہے اور ان چیزوں سے منع کرنا ہے جن کو شریعت نے حرام قرار دیا ہے۔‘‘ ٭ ابن ابی جمرہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : یطلق اسم المعروف علی ما عُرف بأدلۃ الشرع من أعمال البر سواء جرت بہ العادۃ أم لا ( فتح الباری:کتاب الادب، باب کل معروف صدقۃ) ’’معروف کے لفظ کا اطلاق ہر اس نیکی پر ہوتا ہے جس کا نیکی ہونا کسی شرعی دلیل سے معلوم ہو، چاہے رواج اس کے مطابق ہو یا نہ ہو۔‘‘ ٭ ملا علی القاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : المنکر ما أنکرہ الشرع وکرھہ ولم یرض بہ (المبین المعین لفہم