کتاب: محدث شمارہ 310 - صفحہ 30
دیا۔ آنٹی شمیم کے سامنے تین آپشن رکھے گئے تھے: ایک یہ کہ ان کے خلاف کسی حکومتی عدالت میں مقدمہ چلا یا جائے گا اور جامعہ حفصہ کی طالبات ان کے خلاف گواہی دیں گی، دوسرا یہ کہ ان کے خلاف لال مسجد کی شرعی عدالت میں مقدمہ چلا یا جائے۔ تیسرا یہ کہ وہ اپنے گناہ کا اقرار کرنے کے بعدتوبہ کر لیں ۔آنٹی شمیم نے تیسرا آپشن قبول کر لیا اور ان کی توبہ کے بعد لال مسجد کی انتظامیہ نے اُنہیں رہا کر دیا۔ آنٹی شمیم نے رہائی کے بعد بیان دیا کہ اُنہوں نے جرم کا اقبال اپنی بیٹی اور بہو کو بچانے کے لیے کیاتھا۔ علاوہ ازیں تھانہ آبپارہ کے ڈیوٹی آفیسر کے بیان کے مطابق لال مسجد کے خطیب مولانا عبد العزیز غازی اور نائب خطیب مولانا عبد الرشید غازی سمیت اسی نامعلوم طلبا و طالبات کے خلاف مقدمہ درج کر لیاگیا۔ ۳۱/مارچ:مبینہ ذرائع کے مطابق لال مسجد کے کے خطیب نے اپنے خطابِ جمعہ کے دوران درج ذیل مطالبات کیے: حکومت فوری طور پر نفاذِ شریعت کا اعلان کرے، ورنہ آئندہ جمعہ لال مسجد میں منعقدہ ’نفاذِ شریعت کانفرنس‘ میں ہم خود اس کا اعلان کریں گے۔حکومت عریانی و فحاشی کے اڈے بند کرے اور اسلامی نظام نافذکر کے فحاشی کے مرتکب افراد کو بیس کوڑے لگائے، ورنہ لال مسجد میں قاضی کی عدالت میں ان پر حد لاگو کی جائے گی۔ بہت صبر کیا،مر جائیں گے لیکن فحاشی کے اڈّے نہیں چلنے دیں گے۔ نائب خطیب جناب عبد الرشید غازی صاحب کا بیان آیا کہ آنٹی شمیم سے پورا محلہ تنگ تھا۔آنٹی شمیم کے خلاف تقریباً اڑھائی سو معززین محلہ نے میڈیا کو بیانات دیے ۔ یکم اپریل:مبینہ ذرائع کے مطابق جامعہ حفصہ کی طرف سے اسلام آباد میں ویڈیو اور سی ڈیز کا کاروبار کرنے والے مالکان کو اس کاروبار کے تبدیل کرنے پر معاوضے کی پیش کش کی گئی۔ علاوہ ازیں ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے لال مسجد کے خطیب جناب عبد العزیز غازی صاحب نے کہا:آنٹی شمیم اس علاقے میں تقریباً دس برس سے کاروبار چلا رہی تھی، جامعہ حفصہ کی طالبات اس کو سمجھانے کے لیے گئی تھیں لیکن اس کا ردّ عمل ایسا تھا کہ وہ اس کو اُٹھا کر لے آئیں ۔اُنہوں نے مزید یہ کہا کہ حکومت طالبات کے لائبریری پر قبضے کے معاملے کو بہت اُچھال رہی ہے۔ اس وقت کیا ہو اتھا جب ٹونی بلیر کے اس بیان پرکہ’’حکومت