کتاب: محدث شمارہ 310 - صفحہ 3
٭ اسی بات کو امام ابن جریرطبری رحمۃ اللہ علیہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں :
أصل المعروف کل ما کان معروفا فعلہ جمیلا مستحسنا غیر مستقبح في أھل الایمان بااللّٰه وإنما سمیت طاعۃ اللّٰه معروفا لأنہ مما یعرفہ أھل الایمان ولا یستنکرون فعلہ وأصل المنکر ما أنکرہ اللّٰه تعالی ورأوہ قبیحا فعلہ و لذلک سمیت معصیۃ اللّٰه منکرًا لأن أھل الایمان بااللّٰه یستنکرون فعلھا (جامع البیان فی تفسیر آیات القرآن؛سورۃ آلِ عمران:۱۱۰)
’’معروف کا اصل معنی یہ ہے کہ ہر وہ چیز کہ جس کا کرنا جانا پہچانا ہو اور وہ اہل ایمان کے نزدیک اچھا اور مستحسن ہو اور وہ اس کو قبیح نہ سمجھتے ہوں ۔ اور اللہ کی اطاعت کو بھی معروف اس لیے کہتے ہیں کیونکہ یہ ان چیزوں میں سے ہے کہ جنہیں اہل ایمان پہچانتے ہیں اور اس کے کرنے کو ناپسند خیال نہیں کرتے۔ اور منکر کی اصل یہ ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ نے ناپسند جانا ہواور اہل ایمان بھی اس کے کرنے کو ناپسند خیال کرتے ہوں ۔ اسی وجہ سے اللہ کی نافرمانی کو منکر کہتے ہیں کیونکہ اہل ایمان اس کے کرنے کو ناپسند کرتے ہیں ۔‘‘
٭ اسی بات کو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان الفاظ میں بیان کیا:
ما رأی المسلمون حسنا فھو عند اللّٰه حسن وما رأوا سیئا فھو عند اللّٰه سيء (مسند احمد:جلد۴/ص۴۵۳)
’’جس کو مسلمان اچھا سمجھیں تو وہ اللہ کے ہاں بھی اچھا ہے اور جس کو وہ برا سمجھیں وہ اللہ کے ہاں بھی برا ہے۔‘‘
مختصربات یہی ہے کہ عقل عام یافطرتِ انسانی معروف و منکر کا علم حاصل کرنے کے لیے کوئی کسوٹی یامعیار نہیں ہیں بلکہ اصل معیار وحی ہے اور وحی نے معروف اور منکر کا تعین کر دیا ہے اور وحی کے متعین کردہ ان تمام معروفات و منکرات کے معروف و منکر ہونے کی گواہی عقل صحیح اور فطرتِ سلیمہ پر مشتمل انسانی معاشرے بھی دیتے ہیں ۔
٭ اسی بات کو ایک اور اندازمیں بیان کرتے ہوئے مشہور مفسر ابو حیان اندلسی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
فسّر بعضھم المعروف بالتوحید والمنکر بالکفر ولا شک أن التوحید رأس المعروف والکفر رأس المنکر ولکن الظاہر العموم في کل معروف مأمور بہ في الشرع وفي کل منہي نُہي عنہ في الشرع