کتاب: محدث شمارہ 310 - صفحہ 25
تصویر وطن ابو عبد اللہ
جامعہ حفصہ کی کہانی ؛ اخبارات کی زبانی
اسلام آباد میں جامعہ حفصہ اور لال مسجد کی انتظامیہ کے درمیان تنازع بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔ اس اختلاف کی رپورٹیں ۲۰ جنوری کو حکومت ِپاکستان کی طرف سے مسجد امیر حمزہ اوراس سے ملحق مدرسے کو گرانے کے بعد میڈیا میں آنا شروع ہوئیں ۔ لال مسجد کے خطیب کے ایک مبینہ بیان کے مطابق سی ڈی اے اسلام آباد کی طرف سے کچھ عرصے کے وقفے کے ساتھ سات سے زائد مساجد کو گرایا گیا۔ علاوہ ازیں معروف کالم نگار جناب عرفان صدیقی کے۲۸/جنوری ۲۰۰۷ء کے کالم کے بیان کے مطابق اسلام آباد انتظامیہ نے جامع مسجد ضیاء الحق، جامع مسجد شکر لال،جامع مسجد منگرال ٹاؤن،جامع مسجد راول چوک،مسجد شہدا، جامع مسجد مدنی،جامعہ حفصہ اور جامعہ فریدیہ کو بھی گرانے کے لیے نوٹس جاری کر دیے تھے ۔اسلام آباد انتظامیہ کی طرف سے مساجد و مدارس کوشہید کرنے کی اس مہم کی وجہ سے ملک بھر کے علما ا ور مذہبی حلقوں میں اضطراب اور بے چینی کی لہر دوڑ گئی۔علما کے ایک اجلاس میں ’تحریک ِتحفظ مساجد، کے قیام کا اعلان ہواجس میں جامعہ حفصہ کی طالبات نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے عزم کا اظہارکیااورحکومت کو اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے کے لیے جامعہ حفصہ سے ملحق دو بڑے کمروں پر مشتمل ایک چلڈرن لائبریری پر قبضہ کر لیا ۔
۲۵/جنوری کی اخباری اطلاعات کے مطابق اسلام آباد میں تنظیم المدارس کی طرف سے مساجد شہید کرنے کے حکومتی اقدام کے خلاف ایک ریلی کاانعقاد کیا گیا جس میں اتحاد تنظیم مدارس کے صدر مولا نا سلیم اللہ خان،متحدہ مجلس عمل کے جنرل سیکرٹری جنرل عبد الغفور حیدری، مولانا ڈاکٹر سرفراز نعیمی، رکن قومی اسمبلی مولانا عبد المالک وغیرہ نے ریلی سے خطاب کرتے ہوئے حکومت کے مساجد کو شہید کرنے کی مہم کو ہدفِ تنقید بنایا۔