کتاب: محدث شمارہ 310 - صفحہ 23
تلوار کے بغیراور اس منکر کے فاعل کی جان لیے بغیر ممکن نہ ہو تو اس پر ضروری ہے کہ وہ ایسا کر گزرے۔مثلاً ایک شخص اس کے یا کسی دوسرے شخص کے قتل کا ارادہ کر رہا ہے یا وہ ا س کا مال چھیننا چاہتا ہے یا وہ کسی عورت سے زنا کرنا چاہتا ہے یا اس قسم کا کوئی اور کام کرنا چاہتا ہے تو یہ بات بھی معلوم ہو کہ اگر وہ اس شخص کو صرف زبان سے منع کرے گا یا بغیر کسی ہتھیار کے اس سے لڑائی کرے گا تو باز نہیں آئے گا، ایسی صورت میں اس شخص کے لیے اس منکر کے ارتکاب کرنے والے کو قتل کرنا لازم ہے کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جو بھی تم میں سے کسی منکر کو دیکھے تو وہ اس کو ختم کر دے پس جب اس منکر کی ہاتھ کے ساتھ تغییر اس منکر کے مرتکب کے قتل کیے بغیر ممکن نہ ہو تو اس پر فرض ہے کہ وہ اس منکر کے مرتکب کو قتل کر دے اور اگر اس شخص کاغالب گمان یہ ہو کہ اگروہ منکر کے مرتکب کو بغیر کسی ہتھیار کے استعمال کے صرف ہاتھ سے روک دے تو وہ اس سے رک جائے گا تو اس کے لیے منکر کے مرتکب کو قتل کرنا جائز نہیں ہے۔۔۔ اسی طرح امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس چور کے بارے میں جو تمہار امال لے جائے،کہا ہے کہ تیرے لیے گنجائش ہے کہ تو اس کا پیچھا کراور اگر وہ تیرا مال نہ واپس کرے تو تو اس کو قتل کر دے۔ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس چور کے بارے میں جو گھروں میں نقب لگاتا ہے، کہاہے :تیرے لیے اس کو قتل کرنے کی گنجائش ہے۔‘‘ امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : أجمع المسلمون في ما ذکر ابن عبد البر أن المنکر واجب تغییرہ علی کل من قدر علیہ (تفسیر القرطبی:جلد۴/ص۴۹) ’’ابن عبد البر رحمۃ اللہ علیہ نے اس بات پر علما کا اجماع نقل کیاہے کہ ہر اس شخص پر منکر کی تغییر واجب ہے جو کہ اس کی تغییر کی قدرت رکھتا ہو۔‘‘ لیکن قدرت کے باوجود اگر نہی عن المنکر سے کسی بڑے منکر یا بعض دوسرے مفاسدکے پیدا ہونے کا اندیشہ ہو تو علما اس کو جائز قرار نہیں دیتے۔ اس مسئلے پر امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کی تحریر بڑی ہی مؤثرہے۔ فرماتے ہیں : إنکار المنکر أربع درجات: الأولی أن یزول ویخلفہ ضدہ۔الثانیۃ أن یقل وإن لم یزل بجملتہ۔ الثالثۃ أن یخلفہ ما ھومثلہ۔ الرابعۃ أن یخلفہ ما ھو شر منہ۔فالدرجتان الأولتان مشروعتان والثالثۃ موضع اجتہاد