کتاب: محدث شمارہ 310 - صفحہ 22
ہے، حالانکہ حکمران ایک عام انسان کے دائرۂ اختیار میں داخل نہیں ہیں ۔ اسی طرح ایک حسن حدیث میں جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنے کو افضل جہاد کہا گیا ہے٭ اور یہ بھی زبان کے ساتھ امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہی ہے ۔
اگر تو کوئی شخص کسی منکر کا ارتکاب کر چکا ہوتو ا س پر حد یا تعزیر جاری کرنے کامعاملہ تو بلاشبہ حکومت یا امام کی ذمہ داری ہے لیکن اگرکوئی شخص کسی معصیت یامنکر کو دیکھ رہاہو تو اس دیکھنے والے کے لیے بھی اس معصیت یا منکر کا اِزالہ واجب ہو گا، اگر وہ اس کے ازالے کی قدرت رکھتا ہو۔امام ابو بکر جصاص رحمۃ اللہ علیہ نے اس مسئلے پر بڑی ہی مدلل گفتگو کی ہے ، فرماتے ہیں :
وفي ھذہ الأخبار دلالۃ علی أن الأمر بالمعروف والنھي عن المنکر لھما حالان: حال یمکن فیھا تغییر المنکر وإزالتہ،ففرض علی من أمکنہ إزالۃ ذلک بیدہ أن یزیلہ، وإزالتہ بالید تکون علی وجوہ: منھا أن لا یمکنہ إزالتہ إلا بالسیف وأن یأتي علی نفس فاعل المنکر فعلیہ أن یفعل ذلک کمن رأی رجلا قصدہ أو قصد غیرہ بقتلہ أو یأخذ مالہ أو قصد الزنا بامرأۃ أو نحو ذلک وعلم أنہ لا ینتھي إن أنکرہ بالقول أو قاتلہ بما دون السلاح فعلیہ أن یقتلہ لقولہ صلی اللّٰه علیہ وسلم ((من رأی منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ)) فإذا لم یمکنہ تغییرہ بیدہ إلا بقتل المقیم علی ھذا المنکر فعلیہ أن یقتلہ فرضا علیہوإن غلب في ظنہ أنہ ان أنکرہ بیدہ ودفعہ عنہ بغیر سلاح انتھی عنہ لم یجز لہ الإقدام علی قتلہ۔۔۔ وکذلک قال أبوحنیفۃ في السارق إذا أخذ المتاع ووسعک أن تتبعہ حتی تقتلہ إن لم یرد المتاع قال محمد: قال أبو حنیفۃ في اللص الذي ینقب البیوت: یسعک قتلہ
(احکام القرآن:سورۃ آل عمران،باب فرض الامر بالمعروف و النہی عن المنکر )
’’ان احادیث ِمبارکہ میں امر بالمعروف و نہی عن المنکرکی دو صورتیں بیان کی گئی ہیں : ایک صورت تو یہ ہے کہ جس میں منکر کی تغییر اور اس کا اِزالہ ممکن ہو پس جو شخص اس منکر کوہا تھ سے ختم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو اس پر ہاتھ سے اس منکر کو ختم کرنا فرض ہے اور کسی منکر کو ہاتھ سے ختم کرنے کے کئی طریقے ہو سکتے ہیں ۔ ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ اس منکر کا خاتمہ