کتاب: محدث شمارہ 310 - صفحہ 21
احباب ہی میں کرنا چاہیے۔۔۔ اسی ’تواصو بالحق‘ کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو یہ ہدایت فرمائی کہ وہ اگر کوئی منکر دیکھیں تو اپنے دائرۂ اختیار میں اس کا اِزالہ کرنے کی کوشش کریں ۔۔۔شوہر،باپ،حکمران سب اپنے اپنے دائرۂ اختیار میں لاریب اسی کے مکلف ہیں کہ منکر کو قوت سے مٹا دیں ۔‘‘ (میزان:ص۲۱۴‘۲۱۵‘۲۱۶)
غامدی صاحب نے تغییرالمنکرکے لیے دائرۂ اختیار کی جو شرط لگائی ہے، وہ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کے بقول اجماع کے خلاف ہے جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کیونکہ بھلائی کے پہلے قرونِ ثلاثہ میں عوام الناس اور علما ‘اپنے حکمرانوں کو امر بالمعروف و نہی عن ا لمنکرکرتے رہے اور حکمران تو عوام الناس اور علما کے دائرۂ اختیار میں نہیں آتے۔اسی طرح صحیح مسلم کی ایک روایت ہے:
عن عبد اللّٰه بن مسعود أن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم قال ما من نبي بعثہ اللّٰه تعالی في أمۃ قبلي إلا کان لہ من أمتہ حواریون وأصحاب یأخذون بسنتہ ویقتدون بأمرہ ثم إنھا تخلف من بعدھم خلوف یقولون ما لا یفعلون ویفعلون ما لا یؤمرون فمن جاھدھم بیدہ فھو مؤمن ومن جاھدھم بلسانہ فھو مؤمن ومن جاھدھ بقلبہ فھو مؤمن ولیس وراء ذلک من الإیمان حبۃ خردل
(صحیح مسلم: کتاب الایمان،باب کون النھی عن المنکر من الایمان)
’’حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھ سے پہلی اُمتوں میں کوئی بھی ایسا نبی نہیں گزرا کہ جس کے لیے اللہ تعالی نے اس کی اُمت میں سے کچھ اصحاب اور حواری نہ بنائے ہوں جو کہ اس نبی کی سنت کو پکڑتے اور اس کی اقتدا کرتے تھے۔پھر ان کے بعد کچھ ناخلف قسم کے لوگ جانشین بنتے جو ایسی باتیں کرتے تھے جو کہ وہ نہیں کرتے تھے اور ایسے کام کرتے تھے جن کا ان کو حکم نہیں دیا جاتاپس جو ان سے اپنے ہاتھ سے جہاد کرے تو وہ مؤمن ہے اور جو کوئی ان سے اپنی زبان سے جہاد کرے تو وہ بھی مؤمن ہے اور جو کوئی ان سے اپنے دل سے جہاد کرے تو وہ بھی مؤمن ہے اور اس کے بعد تو رائی کے برابربھی ایمان نہیں ہے۔‘‘
اس حدیث میں ناخلف اور نااہل حکمرانوں کے خلاف ہاتھ سے جہاد کو ایمان قرار دیا گیا