کتاب: محدث شمارہ 310 - صفحہ 20
راضیا بہ فذاک وإن کان ساخطا لہ فسخطہ لہ منکر یجب الإنکار علیہ فکیف یحتاج إلی أذنہ في الإنکار علیہ
(احیاء العلوم:جلد۲/ص۱۵۱‘۱۵۲)
’’یہ شرط لگانا(کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لیے حکومت کی اجازت ضروری ہے) ہی فاسد ہے کیونکہ آیات اور احادیث جن کا ہم نے تذکرہ کیا ہے، اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جس نے بھی کسی منکر کو دیکھا اور اور اس پر سکوت اختیار کیا تو اس نے اللہ کی نافرمانی کی کیونکہ اس پر اس منکر سے روکنا واجب تھا۔ چاہے،جہاں بھی اس نے اس منکر کو دیکھا ہواور جس حالت میں بھی دیکھا ہو۔پس اس عام حکم میں اس شرط کے ساتھ تخصیص پیدا کرنا کہ نہی عن المنکر اس وقت فرض ہو گا جبکہ امام کی اجازت ہو، بلا دلیل ہے اور اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔۔۔سلف صالحین کایہ مسلسل طرزِ عمل کہ وہ حکمرانوں کا احتساب کرتے رہے، اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ اس فریضے کی ادئیگی کے لیے حکمرانوں کی طرف سے مامور ہوناقطعاً ضروری نہیں ہے۔پس جس نے بھی معروف کا حکم دیا اور حکمران نے اس کو پسند کیا تو یہی چیز مطلوب ہے اور اگر حکمران اس معروف کے حکم کرنے سے ناراض ہوا تو حکمران کی یہ ناراضگی خود ایسا منکر ہے کہ جس کا انکار واجب ہے۔ اس صورت میں یہ شخص حکمران سے صادر ہونے والے اس منکر کے انکار کے لیے کیسے اس کی اجازت کا محتاج ہوگا؟
امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا میدانِ عمل
ہم یہ بات ثابت کر چکے ہیں کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر ریاست اور اس کے افراد دونوں کی ذمہ داری ہے اور یہی موقف قرآن و سنت اور اجماعِ اُمت سے ثابت ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ فریضہ ادا کرتے وقت ایک ریاست اور عام شہری یا مسلمانوں کی تنظیم کے دائرۂ عمل میں کچھ فرق ضرور ہو گا۔لیکن اس فرق کے باوجود فرد اور ریا ست دونوں کے لیے یہ دائرۂ عمل بہت وسیع ہے ۔جناب جاوید احمد غامدی کی رائے اس سلسلے میں یہ ہے کہ وہ ایک فرد کے دائرۂ عمل کو اپنے گھر،اعزہ واقارب اور احباب تک محدود کر دیتے ہیں ۔ جناب غامدی صاحب لکھتے ہیں :
’’اس دعوت کا اصل دائرۂ عمل،جس طرح کہ ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کے الفاظ سے واضح ہے،ہر شخص کا اپنا ماحول ہے۔اس کو یہ کام اپنے گھر،اپنے اعزہ و اقارب اور اپنے