کتاب: محدث شمارہ 310 - صفحہ 19
میں اقتدار بخشیں تو نماز کا اہتمام کریں گے،زکوٰۃ ادا کریں گے،بھلائی کی تلقین کریں گے اور برائی سے روکیں گے۔‘‘ (میزان:ص۲۱۲)
ہم نے اس آیت کا ترجمہ وہی بیان ہے جو کہ غامدی صاحب نے اپنی کتاب ’میزان‘ میں لکھا ہے۔ غامدی صاحب نے اپنے اس ترجمے میں اس آیت کو اصحاب اقتدار کے ساتھ خاص کیا ہے جو صحیح نہیں ہے۔ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ قرآن کی اسی آیت مبارکہ کی تفسیرکرتے ہوئے فرماتے ہیں :
ألا إنھا لیست علی الوالي وحدہ ولکنھا علی الوالي والمولي علیہ (تفسیر ابن کثیر:سورۃ الحج:۴۱)
’’خبر دار یہ صرف حکمران کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ حکمران اور عوام الناس دونوں پر فرض ہے ۔‘‘
کیونکہ ’تمکین فی الارض‘ صرف حکمران کو حاصل نہیں ہے بلکہ قرآن کی رُو سے ہر انسان کو کسی نہ کسی نوع کا تمکناس زمین میں حاصل ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: ﴿وَلَقَدْ مَکَّنّٰکُمْ فِیْ الاَرْضِ وَجَعَلْنَا لَکُمْ فِیْھَا مَعَایِشَ﴾ (الاعراف:۱۰)
’’(اے انسانو!) ہم نے تم سب کو زمین میں جگہ دی ہے اور اسی میں تمہارے وسائل رزق رکھے ہیں ۔‘‘
ظاہر ہے کہ تمام انسان زمین میں خلیفہ ہیں اور ہر انسان کوئی نہ کوئی اختیار رکھتا ہے لہٰذا جزوی اقتدار بھی ہر شخص کو حاصل ہے۔امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو اصحابِ اقتدار کے ساتھ خاص کرنا ایک ایسی غیرمنطقی اور خلافِ عقل بات ہے جس کا ردّ قرآن و سنت کی واضح و صریح نصوص کے علا وہ اجماعِ اُمت اورعقل عام سے بھی ہوتاہے۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ ،غامدی صاحب جیسا موقف رکھنے والے افراد کا ردّ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
ھذا الاشتراط فاسد فإن الآیات والأخبار التي أوردناھا تدل علی أن کل من رأی منکرا فسکت علیہ عصی إذ یجب نھیہ أینما رأہ وکیفما رأہ علی العموم فالتخصیص بشرط التفویض من الإمام تحکم لا أصل لہ…استمرار عادات السلف علی الحسبۃ علی الولاۃ قاطع بإجماعھم علی الاستغناء عن التفویض بل کل من أمر بمعروف فإن کان الوالي