کتاب: محدث شمارہ 310 - صفحہ 18
﴿لاَ خَیْرَ فِیْ کَثِیْرٍ مِنْ نَّجْوَاھُمْ اِلاَّ مَنْ اَمَرَ بِصَدَقَۃٍ اَوْ مَعْرُوْفٍ اَوْ اِصْلَاحٍ بَیْنَ النَّاسِ﴾ (النساء:۱۱۴) ’’ان کی سرگوشیوں میں کوئی خیر نہیں ہے سوائے اس کے جس نے صدقہ کرنے کا حکم دیا یا کسی معروف کا حکم دیا یا لوگوں میں اصلاح کا حکم دیا۔ ‘‘ انہی ارشاداتِ قرآنی وغیرہ کی رو سے علما کا اس بات پر اتفاق ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر صرف اصحابِ اقتدار کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ یہ عام مسلمانوں کے لیے بھی ثابت ہے ۔امام نووی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : قال العلمائ: ولا یختص الأمر بالمعروف والنھي عن المنکر بأصحاب الولایات بل ذلک ثابت لاحاد المسلمین۔ قال إمام الحرمین: والدلیل علیہ إجماع المسلمین فإن غیر الولاۃ في الصدر الأول والعصر الذي یلیہ کانوا یأمرون الولاۃ بالمعروف وینھوھم عن المنکر مع تقریر المسلمین إیاھم وترک توبیخھم علی التشاغل بالأمر بالمعروف والنھي عن المنکر من غیر ولاۃ (شرح النووی مع صحیح مسلم:کتاب الایمان، باب کون النھی عن المنکر من الایمان) ’’علما نے کہا ہے کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر اصحابِ اقتدار کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ یہ عام مسلمانوں کے لیے بھی ثابت ہے ۔امام الحرمین رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ اس بات کی دلیل مسلمانوں کا اجماع ہے کیونکہ صدرِ اوّل اور اس سے ملحق زمانوں میں عوام الناس،حکمرانوں کو معروف کا حکم دیتے تھے اور منکر سے منع کرتے تھے اور اس پر تمام مسلمانوں کی تقریر شاہد ہے۔ علاوہ ازیں تمام مسلمانوں کا حکمرانوں کے علاوہ افرادِ امت کے امر بالمعروف و نہی عن ا لمنکر میں مشغول ہو جانے پر کوئی انکار نہ کرنابھی ا س بات کی دلیل ہے کہ اس پر مسلمانوں کا اجماع ہے کہ یہ غیر حکمران کے لیے بھی روا ہے۔‘‘ غامدی صاحب نے اپنے اس موقف کے اثبات کے لیے جو دلیل دی ہے، وہ قرآن کی درج ذیل آیت ہے : ’’اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَنّٰھُمْ فِیْ الأرْضِ اَقَامُوْا الصَّلوٰۃَ وَ آتُوْا الزَّکوٰۃَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ‘‘اور یہ (اہل ایمان) وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو سرزمین