کتاب: محدث شمارہ 310 - صفحہ 17
فریضے کی ادائیگی میں کوئی کردار ہے؟ جمہور علما کے نزدیک یہ فریضہ’ ریاست‘ کے ساتھ ساتھ فرد اور عام معاشرے پر بھی عائدہوتا ہے ۔جبکہ ہمارے ہاں بعض متجددین نے اس کے لیے ریاست یا اس کی اجازت کو بطورِ شرط بیان کیا ہے ۔جناب علامہ جاوید احمد غامدی صاحب لکھتے ہیں : ’’یہ حکم (یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر) اربابِ اقتدار سے متعلق ہے ۔۔۔دوسرے لفظوں میں گویا قرآن کا منشا یہ ہے کہ فوج اور پولیس کی طرح اسلامی ریاست کے نظام میں ایک محکمہ قانونی اختیارات کے ساتھ امر بالمعروف اورنہی عن المنکرکے لیے قائم ہونا چاہیے۔۔۔قرآن مجید کی رو سے اُمت میں قیامِ حکومت کے بعد یہ فرض اس کے اربابِ حل و عقد پر عائد ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کو خیر کی طرف بلاتے،منکر سے روکتے اور معروف کی تلقین کرتے رہیں ۔ ان پر لازم ہے کہ نظم ریاست سے متعلق دوسری تمام فطری ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے ساتھ اپنی یہ ذمہ داری بھی لازماً پوری کریں ۔‘‘ (میزان:ص۲۱۲) غامدی صاحب کے نزد یک امر بالمعروف اور نہی عن المنکر حکومت یا صرف اس کی طرف سے متعین کردہ نمائندوں کا فریضہ ہے۔ ان کے نزدیک علما یا عوام الناس پر یہ فرض نہیں ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکریں ۔غامدی صاحب کایہ موقف قرآن و سنت اور اجماعِ اُمت کے خلاف ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ﴿وَالْمُؤمِنُوْنَ وَالْمُؤمِنٰتُ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَائُ بَعْضٍ یَّاْمُرُوْنَ بِالْمُعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ﴾ (التوبۃ :۷۱) ’’مؤمن مرد اور مؤمن عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں ۔ وہ معروف کا حکم دیتے ہیں اور منکر سے منع کرتے ہیں ۔ ‘‘ قرآن کی اس آیت سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ فریضہ عام ہے۔ اسی طرح قرآنِ کریم کی اور بھی بہت سی آیات اس بات شاہد ہیں کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ایک عام فریضہ ہے کہ جس میں حکومت و ریاست اور عوام و علما برابر کے شریک ہیں ۔ان آیات کو امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب إحیاء العلوم میں جمع کر دیا ہے ان میں ایک اور آیت ہم پیش کیے دیتے ہیں ۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے :