کتاب: محدث شمارہ 310 - صفحہ 15
ذمہ داری بھی مطلوب ہے تو پھر اس کا ذاتی طور پر بھی اس عمل کو کرنالازم ہو گا جیسے اسلام کے ارکانِ خمسہ نماز،روزہ وغیرہ چنانچہ صرف ریاست کے اسلامی کلمہ (طیبہ) کے حامل ہونے کی بنا پر تمام شہری مسلمان نہ ہوں گے بلکہ اقلیتوں کے وجود کی بھی گنجائش ہو گی۔ جناب غامدی صاحب کو یہ غلطی لگی ہے کہ وہ روے زمین پر بسنے والے انسانوں کو صرف افراد کی حیثیت سے یا حکمران کی حیثیت سے دیکھ رہے ہیں جبکہ سماج و معاشرہ کی اہمیت کووہ نظر انداز کر رہے ہیں حالانکہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فرض کی ادائیگی کے لیے سماج ومعاشرہ بھی (غیر سیاسی حیثیت سے) بہت اہم ذمہ داریوں کا حامل ہے ۔لہٰذا وہ جس طرح امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے فریضے کو ریاست کی انتظامیہ کے ساتھ خاص کر کے اصحابِ اقتدار کے اختیارات کے گن تو گارہے ہیں لیکن اُنہوں نے یہ بھی غور نہیں کیا کہ ان کی نام نہاد جمہوریت میں حکومت کی ذمہ داری تو عارضی ہوتی ہے جبکہ عوام کی سیاسی حاکمیت ہمیشہ بحال رہتی ہے اوریہ علم سیاسیات کی ایک اُصولی بات ہے کہ حکومتیں عوامی دباؤ سے بھی بہت سے کام کرتی ہیں چنانچہ چیک اینڈ بیلنس کا نظام بھی ریاست کے نظم و نسق کے لیے اشد ضروری ہے اوراربابِ اقتدار کو سیدھا رکھنے کا یہ کام سیاسی مقتدرِ اعلیٰ (سیاسی جماعتیں اور عوام) ہی انجام دیتے ہیں ،اس لیے امر بالمعروف و نہی عن المنکر یقیناعوام الناس کا بھی فریضہ ہے۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور شرطِ عدالت بعض علما نے کہا کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لیے عدالت شرط ہے یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود بھی معروف پر عمل پیرا ہو اور منکر سے روکنے والا ہو۔کسی حد تک یہ شرط لگانا صحیح ہے کیونکہ قرآن نے ان لوگوں پر تنقید کی ہے جو کسی دوسروں کو تو نیکی کا حکم دیتے ہیں لیکن خود نیکی نہیں کرتے ۔جیسا کہ ارشادِ باری ہے : ﴿اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَ تَنْسَوْنَ اَنْفُسَکُمْ﴾ (البقرۃ:۴۴) ’’کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور خود اپنی جانوں کو بھول جاتے ہو۔‘‘ لیکن یہ کہناکہ جو شخص کسی معروف کا تارک ہو یا کسی منکر کا مرتکب ہو تو اس پر سے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کافریضہ ساقط ہو جاتا ہے،پوری طرح صحیح نہیں ہے۔