کتاب: محدث شمارہ 310 - صفحہ 14
کے توسط سے میں شامل ہوں گے تویہ فرضِ کفایہ ہوگا۔ گویادونوں صورتوں میں انفرادی اور اجتماعی طور پر فرد و معاشرہ فرض کی ادائیگی کے لیے ذمہ دار ہوتے ہیں لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ فرضِ عین میں براہِ راست خطاب فرد سے ہوتا ہے جبکہ فرضِ کفایہ میں اصل مخاطب معاشرہ یا جماعت ہوتی ہے۔ اس کی سادہ سی مثال رفاہِ عامہ کے کام اور معاشرے کی اصلاح ہے جوبلاشبہ حکومت کا فرض تو ہے ہی لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے افرادیا این جی اوز(NGOs)بھی نہ صرف رفاہی اُمور انجام دیتے ہیں بلکہ حکومتوں سے بھی بازی لے جاتے ہیں ۔ یہ این جی اوز جس طرح رفاہی امور انجام دیتی ہیں اسی طرح اُنہیں معاشرے میں موجودسماجی خرابیوں کا بھی علاج کرنا چاہئے۔ معاشرتی اصلاح و بہبود کے اس عمل کی مثبت اور منفی دونوں جہتوں کا کوئی صاحب ِعقل انکار نہیں کرسکتا۔ لہٰذابلاشبہ معاشرے کی اصلاح و بہبود کے کام حکومت کے علاوہ عوام الناس یا کوئی سرکاری یا غیر سرکاری جماعت بھی انجام دے سکتی ہے لیکن فرد کے بجائے جب معاشرتی سطح پر کام کیا جائے تو یہ فرق ہوتاہے کہ اگرچہ کام تو افراد ہی کرتے ہیں لیکن سماجی انجمنوں کے کام انجام دینے کے بعد عام افراد سے یہ بوجھ اُتر جاتا ہے اسی لئے اسے فرضِ کفایہ (کچھ افراد کے کام نے سب کوکفایت کردیا) کہتے ہیں جبکہ فرضِ عین بعینہٖ(ہر فرد عین پر) لازم ہوتا ہے مثلاً بعض افراد کے پانچ نمازیں پڑھنے سے تمام معاشر ے سے نماز کی ادائیگی کی ذمہ داری ساقط نہ ہوگی جبکہ نمازِجنازہ اگر متعلقین ادا کرلیں تو تمام معاشرے کی ذمہ داری پوری ہوجاتی ہے اسی لیے نمازِ جنازہ کو فرضِ کفایہ کہتے ہیں ۔ فرضِ عین اور فرضِ کفایہ کی تقسیم ایک اور اعتبار سے بھی کی جاسکتی ہے۔ وہ اس طرح کہ شرع کا اصل مقصد یا تو بھلائی کو صرف وجود میں لانااوربرائی کا خاتمہ ہوتاہے یا ہر فرد و بشر کو اس کام کا مکلف بنانا بھی مقصود ہوتاہے۔ اگر کام کے ساتھ فرد کی ذاتی ذمہ داری بھی مطلوب ہو تو وہ فرضِ عین ہوگا اور اگر صرف کارِ خیر کا وجود مقصودہو تووہ فرضِ کفایہ ہوگا چنانچہ جب کام ہی مطلوب تھا اور وہ تکمیل پذیر ہوگیا تو مقصود حاصل ہوا،اس لیے باقی افراد سے اس فریضے کی ادائیگی کی ذمہ داری ساقط ہو جائے گی جیساکہ جہاد و قتال کا فریضہ ہے۔ اور اگر فرد کی ذاتی