کتاب: محدث شمارہ 310 - صفحہ 13
اس سے اس فرض کی اقامت مطلوب ہے اور جو اس فرض کی اقامت پر قادر نہ ہو تو اس سے ایک اور چیز مطلوب ہے اور وہ یہ کہ وہ اس فرض کی ادائیگی کی قدرت رکھنے والے کو اس فرض کی اقامت کے لیے کھڑا کرے اور اسے اس فرض کے قائم کرنے پر مجبور کرے۔ ‘‘ پس یہ معلوم ہوا کہ جو لوگ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی استطاعت اور قدرت رکھتے ہیں تو ان پر اس فریضے کی ادائیگی فرضِ عین ہے جبکہ باقی افراد کا فرض یہ ہے کہ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی استطاعت و قوت رکھنے والوں کو اس فرض کی ادائیگی پر مجبور کریں ۔اس اعتبار سے امام شاطبی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس فریضے کے اقامت میں تمام لوگ شامل ہوجائیں گے۔ یہ واضح رہے کہ جو صاحب ِاستطاعت ہے، اس کے حق میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر فرض عین ہو جاتا ہے۔ اس بارے میں امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : وھو فرض علی الکفایۃ ویصیر فرض عین علی القادر الذي لم یقم بہ غیرہ (الحسبۃ في الإسلام:ص۳۷) ’’یہ فرضِ کفایہ ہے لیکن اس شخص پر یہ فرضِ عین ہو جاتاہے جو کہ اس پر قادر ہوجبکہ اس کے علاوہ اس فرض کو کو ئی اور انجام بھی نہ دے رہا ہو۔‘‘ اس اعتبار سے حدودو تعزیرات کا نفاذ اصحابِ اقتدار اور اُمرا پر فرضِ عین ہے کیونکہ ا س فریضہ کی ادائیگی پر صرف یہی لوگ قادر ہیں ۔ اسی طرح اگر امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ کوئی بھی انجام نہ دے رہا ہو تویہ بھی اصحابِ اقتدار پر فرضِ عین ہو گا۔ فرضِ عین اور فرضِ کفایہ کی تقسیم میں ہمارے ہاں بڑے مغالطے پائے جاتے ہیں ۔ ہم ان غلط فہمیوں کو دورکرنے اور فرضِ عین اور فرضِ کفایہ کے باہمی ربط و تعلق کو واضح کرنے کے لیے یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بھلائی کو فروغ دینے اور برائی کے خاتمے کے لئے جو احکامات دیے ہیں ، ان میں مخاطبین کی دو حیثیتیں ہیں : 1. اگرا للہ کی طرف سے دیے گئے احکامات میں براہِ راست فرد مخاطب ہوتو معاشرے سے خطا ب بالواسطہ ہوگا، اسے فرضِ عین کہتے ہیں ۔ 2. اگران احکامات میں اصل مخاطب معاشرہ یا جماعت ہواور جبکہ اشخاص، معاشرہ یا جماعت