کتاب: محدث شمارہ 310 - صفحہ 12
مروی ہیں اور علما سلف اور تمام بلادِ اسلامیہ کے فقہا کا اس بات پر اجماع ہے کہ یہ فرض ہے۔‘‘
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
قد تطابق علی وجوب الأمر بالمعروف والنھي عن المنکر الکتاب والسنۃ وإجماع الأمۃ۔۔۔ ووجوبہ بالشرع لا بالعقل خلافا للمعتزلۃ
(شرح النووی مع صحیح مسلم‘کتاب الایمان‘باب کون النھی عن المنکر من الایمان)
’’امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فرض ہونے پر کتاب و سنت اور اجماعِ اُمت سبھی شاہد ہیں ۔۔اور اس کا فرض ہونا شرعاً ہے نہ کہ عقلاً جیسا کہ معتزلہ کا خیال ہے۔‘‘
امر بالمعروف و نہی عن المنکر فرضِ عین یا فرضِ کفایہ
علما کا اس مسئلے میں اختلاف ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر فرضِ عین ہے یا فرضِ کفایہ؟جمہور علما کی رائے یہ ہے کہ یہ فرضِ کفایہ ہے جبکہ بعض علما کا کہنا یہ ہے کہ یہ فرضِ عین ہے۔ علما کے ان اقوال میں تطبیق پیدا کرنے کے لیے امام شاطبی رحمۃ اللہ علیہ نے بڑی عمدہ بحث کی ہے،وہ فرماتے ہیں :
قد یصح أن یقال أنہ واجب علی الجمیع علی وجہ من التجوز لأن القیام بذلک الفرض قیام بمصلحۃ عامۃ فھم مطلوبون بسدھا علی الجملۃ فبعضھم ھو قادر علیھا مباشرۃ وذلک من کان أھلا لھا والباقون وإن لم یقدروا علیھا قادرون علی إقامۃ القادرین فمن کان قادرا علی الولایۃ فھو مطلوب بإقامتھا ومن لا یقدر علیھا مطلوب بأمر آخر وھو إقامۃ ذلک القادر وإجبارہ علی القیام بھا
(الموافقات:جلد۱/ص۱۷۸تا۱۷۹)
’’یہ کہنا مجازاًصحیح ہو گا کہ وہ ( فرضِ کفایہ)سب پر ہی فرض ہے کیونکہ اس فرض کو قائم کرنا درحقیقت دین کی ایک عمومی مصلحت کو پوراکرناہے اور اس عمومی مصلحت کے پورا کرنے کامطالبہ سب مسلمانوں سے ہے۔ پس بعض تو اس فرضِ کفایہ کوخود انجام دینے کی قدرت رکھتے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں کہ جن میں اس فرض کی ادائیگی کی اہلیت ہوجبکہ باقی افراد اگرچہ اس فرض کی ادائیگی پر تو قادر نہیں ہیں لیکن وہ اس فرض کی قدرت رکھنے والوں کو ا س فرض کی ادائیگی کے لیے کھڑا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں پس جو شخص اس فرض کی ادئیگی پر قادر ہو تو