کتاب: محدث شمارہ 310 - صفحہ 11
حکم دے او رمنکر سے منع کرے اور وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔‘‘ امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت ِمبارکہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں : و’مِنْ‘ في قولہ تعالی:’منکم‘ للتبعیض۔ ومعناہ یجب أن یکونوا علماء ولیس کل الناس علمائ۔وقیل لبیان الجنس والمعنی لتکونوا کلکم کذلک (الجامع لاحکام القرآن:سورۃ آلِ عمران:۱۰۴) اور مِنْ اللہ تعالی کے قول منکم میں تبعیض کے لیے ہے اور اس کا معنی یہ ہے کہ ضروری ہے کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرنے والے علما ہوں جبکہ تمام لوگ علما نہیں ہوتے اور ایک دوسرا قول یہ ہے کہ مِن بیانِ جنس کیلئے ہے یعنی تم سب امر بالمعروف و نہی عن ا لمنکر کرو۔‘‘ ٭ اس مفہوم میں قرآن کریم کی ایک اور آیت اس سے بھی زیادہ واضح ہے : ﴿کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ﴾ ’’تم لوگوں کے لئے نکالی گئی بہترین اُمت ہو۔ تم نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہو۔‘‘ ٭ اسی طرح بہت سی احادیث میں بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی تاکید کی گئی ہے مثلاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان اوپر بیان ہو چکا ہے : من رأی منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ فإن لم یستطع فبلسانہ فإن لم یستطع فبقلبہ وذلک أضعف الایمان (صحیح مسلم:کتاب الایمان، باب کون النھی عن المنکر من الایمان) ’’جو بھی تم میں سے کسی منکر کو دیکھے تو اسے چاہیے کہ وہ اسے اپنے ہاتھ سے تبدیل کر دے۔ اگر اس کی استطاعت نہیں رکھتا تو اپنی زبان سے اور اگر اس کی بھی استطاعت نہیں رکھتا تو اپنے دل سے۔‘‘ ٭ اسی طرح علما کا اجماع بھی اس بات کی صریح دلیل ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر واجب ہے۔ امام ابو بکر جصاص رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : أکد اللّٰه تعالی فرض الأمر بالمعروف والنھي عن المنکر في مواضع من کتابہ وبینہ رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم في أخبار متواترۃ عنہ فیہ وأجمع السلف وفقہاء الأمصار علی وجوبہ (احکام القرآن:سورۃالمائدۃ،باب الامر بالمعروف و النھی عن المنکر) ’’اللہ تعالی نے امر بالمعرو و نہی عن المنکر کی فرضیت کو اپنی کتاب میں کئی جگہ تاکیداً بیان کیا ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی فرضیت کو ان احادیث میں بیان کیاہے جو کہ آپ سے متواتر