کتاب: محدث شمارہ 310 - صفحہ 10
یہاں ایک اور بات کی وضاحت ضروری ہے کہ بعض لوگ منکر اور معصیت کو ایک ہی سمجھتے ہیں ، حالانکہ ان دونوں میں فرق ہے۔منکر کا لفظ وسیع مفہوم کا حامل ہے۔منکر میں معصیت کی نسبت کسی مسلم معاشرے کا ایک فعل کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھنے کا مفہوم بھی اضافی طور پر پا یا جاتا ہے۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے احیاء العلوم میں اس فرق کو کئی مثالوں کے ذریعے واضح کیا ہے مثلاً ایک بچہ پیشاب پی رہا ہو تو ہم اس کے اس فعل کو معصیت تونہیں کہیں گے کیونکہ وہ بلوغت سے پہلے شرعی احکام کامکلف نہیں ہے لیکن اس کا یہ فعل منکر ضرور ہے، اس لیے اسے اس فعل سے روکا جائے گا۔اسی طرح اگر کوئی پاگل زناکر رہا ہو تو وہ بھی مکلف نہ ہونے کی وجہ سے معصیت کا مرتکب نہیں ہے لیکن اس کا یہ فعل منکر ہے لہٰذا اسے اس فعل سے روکا جائے گا ۔اسی طرح اگر کوئی غیر مسلم یا منکر خدا عمل قومِ لوط میں مبتلا ہو تو اگرچہ وہ شرعی احکام کا مکلف نہیں ہے لیکن اس کے باوجود اس کو اس فعل سے روکنا نہی عن المنکر کے تحت آئے گا جیسا کہ اللہ تعالی نے حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کے فعل بد کے لیے ﴿وَتَاْتُوْنَ فِیْ نَادِیْکُمُ الْمُنْکَر﴾ کے الفاظ استعمال کیے۔ معلوم یہ ہوا ہے کہ منکر میں ہر معصیت شامل ہے لیکن ہر معصیت، منکر نہیں ہے۔یہ بات واضح رہے کہ بچے یا پاگل یا غیر مسلم کے اس فعل کا منکر ہونا ہمیں شریعت ہی سے معلوم ہوا ہے لہٰذا ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ وحی نے کوئی ایسی چیزباقی نہیں چھوڑی کہ جس کے معروف و منکرہونے کے بارے میں عقل و فطرت کو حَکَم بنا نے کی ضرورت محسوس ہو۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکا وجوب و اہمیت امر بالمعروف و نہی عن المنکر واجباتِ شرعیہ میں سے ایک اہم ترین واجب ہے کہ جس کے وجوب پر قرآن و سنت اور اجماعِ اُمت شاہد ہیں ۔قرآنِ مجید میں کئی جگہ اُمت ِمسلمہ کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکی تاکید کی گئی ہے،ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ﴿ وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاُوْلئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾ (سورۃ آلِ عمران:۱۰۴) ’’اور تم میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو لوگوں کو خیر کی طرف بلائی۔ اُنہیں معروف کا