کتاب: محدث شمارہ 31 - صفحہ 9
ہے۔ اسی طرح ذاتِ رسول پر اپنے تمام متعلقات کے ساتھ ایمان لانا بھی ضروری ہے۔ کلمہ طیبہ کے دوسرے جزو ’محمد رسول اللہ‘ کا مفہوم بھی یہی ہے۔
۳؎ اِلَیْکَ (آپ کی طرف، آپ پر)اس سے معلوم ہوا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اور کسی کی وحی، القاء اور الہام پر ایمان لانا ضروری نہیں۔ اس لئے صوفیائے کرام رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کے رویا، کشوف اور القاء گو صحیح بھی ہو سکتے ہیں، مگر ان پر ایمان لانا یا ان کی طرف ’دعوت‘ دینا دینی فریضہ نہیں ہے اور جو لوگ ان کی بنا پر جدید حلقے تشکیل دے کر ان کی ’نسبتوں‘ کے نام پر مہم چلاتے ہیں، اچھا نہیں کرتے بلکہ ملتِ اسلامیہ میں انتشار کے سامان کرتے ہیں اور امت محمدیہ علیٰ صاحبہا الف الف صلوٰۃ و سلام کی یکسوئی پر کاری ضربیں لگا کر اس کو ’’بلبل ہزار داستان‘‘ بنا ڈالتے ہیں وہ حلقے خانقاہی ہوں یا فقہی، کلامی ہوں یا سیاسی بہرحال یقین کے ساتھ ان کے لئے نہ منزل من اللہ ہونے کا نعرہ لگایا جا سکتا ہے اور نہ ان کی طرف دعوت کے سلسلے قائم کر کے خدا اور رسول کی نسبتوں کو کمزور کرنے کی کسی کو اجازت دی جا سکتی ہے۔ یہ متقیوں کی چوتھی صفت بیان کی گئی ہے۔
۴؎ مِنْ قَبْلِکَ (آپ سے پہلے)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام پر جتنا اور جیسا کچھ نازل ہوا بلا استثناء سب کو برحق ماننا ایمان اور اسلام کا جزو ہے کیونکہ سرکار عالی کی جناب سے جب کبھی جو کچھ بھی عطا ہوا حق تھا، صواب تھا، حالات اور وقت کے تقاضوں کا صحیح جواب تھا۔
﴿وَبِالْاٰخِرَۃِ۱؎ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ۲؎ ﴾
اور وہ آخرت کا بھی یقین رکھتے ہیں
_______________________________
اس آیت میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وحی اور آپ سے سابق انبیاء علیہم السلام والصلوٰۃ کی وحی پر ایمان لانے کا تو ذکر ہے، لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کی وحی کا ذکر نہیں کیا گیا ہے، کیا گیا ہے تو صرف آخرت کا کیا گیا ہے کیونکہ بعد میں اور کسی نبی کے آنے کا امکان نہیں رہا، اب انتظار تھا تو صرف اس گھڑی کا تھا جس میں انبیاء کرام کی مساعی جمیلہ، دعوت اور امتوں کے انکار اور اجابت کے نتائج کا کامل ظہور ہو جانا چاہئے۔ یعنی آخرت، معاد۔
بِالْاٰخِرَۃِ (آخرت کے ساتھ، اخری، روزِ حشر)اس کو ’معاد‘ بھی کہتے ہیں، گویا کہ انسان ادھر پلٹ جاتا ہے، جدھر سے آیا تھا، اس کا نام ’’یوم المیعاد‘‘ بھی ہے، کیونکہ اسی دن جزا سزا کے سب وعدے پورے ہوں گے۔
موت، برزخ، نفخ صور جس کے ذریعے کائنات پر ہمہ گیر فناہ کا طاری ہونا ہے، نفخ صور ثانی جس کے ذریعے سب مردے زندہ اُٹھ کھڑے ہوں گے۔ محشر کے وہ کوائف جن سے ہر متنفس کو گزرنا ہو گا، پل صراط، وزن اعمال، شفاعت جلالِ الٰہی کے کامل اور واضح ظہور کا دن، بے لاگ اور جامع چیکنگ، احتساب، جنت و دوزخ کا مشاہدہ اور جنت و