کتاب: محدث شمارہ 31 - صفحہ 8
التفسیر والتعبیر سلسلہ کے لئے ملاحظہ فرمائیں: عزیز زبیدی واربرٹن۔ شیخو پورہ جلد ۳ عدد ۴ شمارہ صفر المظفر ۹۳ھ سورۃ البقرۃ ﴿وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَا۱؎ اُنْزِلَ۲؎ اِلَیْکَ۳؎ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ۴؎ اور (اے پیغمبر!)جو (کتاب)تم پر اتری اور جو (کتابیں)تم سے پہلے اتریں، ان (سب)پر ایمان لاتے ہیں۔ ________________________________________________ ۱؎ مَآ (جو کچھ)اس کا مفہوم عام ہے، وحی جلی (کتاب اللہ)، وحی خفی (حدیث رسول اللہ)رسالت، خود ذاتِ رسول۔ کیونکہ ’’جو کچھ‘‘ میں یہ سب کچھ آجاتا ہے۔ جو کلام جبرائیل کے توسط سے نازل ہوا اس کو ’’وحی جلی‘‘ کہتے ہیں اور ملکۂ نبوت (جو منصب و عہدہ کے خصائص کا خصوصی حاصل ہوتا ہے)پر مبنی آپ کی حیاتِ طیبہ کے جد خدّوخال اُبھرے اس کو ’’وحی خفی‘‘ کہتے ہیں۔ ۲؎ اُنْزِلَ (اتارا گیا، نازل کیا گیا)اس کی کئی صورتیں ہیں۔ اوپر سے نیچے اتارنا مگر یہ اس کا لازمی جزو نہیں، ایک چیز کا ذہن میں آنا کسی شی کا پہنچا دینا اور وہ بذریعہ قاصد ہو یا بواسطہ القاء سبھی کو انزال اور نزول کہتے ہیں۔ یہاں پر مَا اُنْزِلَ سے مراد قرآن کریم بھی ہے اور حدیثِ رسول بھی کیونکہ دونوں من جانب اللہ ہوتے ہیں۔ قرآن کریم تو بالکل ظاہر ہے، باقی رہی حدیث؟ تو وہ اس لئے کہ وہ خدائی القاء کا مظہر ہوتی ہے یا خدا کے پیغمبر کے منہ مبارک سے نکلی ہوئی ایک ایسی بات ہوتی ہے یا فعل، جس پر رب نے سکوت فرمایا ہوتا ہے جو اس امر کی دلیل ہوتا ہے کہ یہ بھی منشاء الٰہی کے مطابق ہے ورنہ اس پر آپ کو ٹوک دیا جاتا۔ اس کے علاوہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور آپ کی ذات کو بھی انزال سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ ﴿قَدْ اَنْزَلَ اللّٰہُ اِلَیْکُمْ ذِکْرًا رَسُوْلًا﴾ (پ۲۸۔ الطلاق ع۲) خدا نے تم پر ’ذکر‘ (یعنی)رسول نازل فرمایا ہے۔ رسول کو ’ذکر‘ سے تعبیر کیا، کیونکہ وہ سراپا ’’یادداشت‘‘ ہوتے ہیں اور ذاتِ رسول کے بارے میں فرمایا کہ اسے اللہ نے اتارا ہے۔ کیونکہ پیغمبر خدا کی کتاب زندگی بھی سراپا قرآن تھی، اللہ کے رسول کی حیاتِ طیبہ خدا کی نگرانی میں تشکیل پاتی ہے۔ جو قومی، ملکی اور خاندانی چھاپ سے منزہ اور سراپا موہبت ربانی ہوتی ہے۔ کسی شے نہیں ہوتی۔ اس لئے آپ کے سراپا کو منزل من اللہ سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ پیغمبر خدا ئی حیات طیبہ قرآن کا عکس اور اس کی تعلیمات کا مرئی پیکر ہوتی ہے اور یہ چیز خدائی تحفظ اور نگرانی کے بغیر ممکن نہیں ہوتی۔ اس لئے اس کو منزل من اللہ کہہ کر قرآن حمید کی طرح اس کو بھی ’شریعت کا ماخذ‘ قرار دیا۔.... اور جس طرح قرآن پر ایمان لانا جزو ایمان