کتاب: محدث شمارہ 31 - صفحہ 7
انا للّٰہ وانا الیه راجون۔
موصوف کی عمر ۸۰ سال سے زیادہ تھی، اخوان المسلمین سے وابستہ ہونے سے پہلے موصوف مصر کے کورٹ آف اپیل کے جج تھے۔ اخوان کے بانی حسن البنا کے بعد اخوان نے ۱۹۶۹ء میں حسن الہضیبی کو اپنا سربراہ منتخب کر لیا۔ ۱۹۵۳ء میں ان کو اور ان کو بہت سے ساتھیوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ مصر کے موجودہ صدر انور السادات نے ۱۹۷۲ء میں انہیں رہا کیا تھا۔ (امروز ۱۸ء نومبر)
بات یہ نہیں کہ فلاں عظیم شخصیت دنیا سے رخصت ہو گئی، کیونکہ تابہ کے؟ آخر یہی ہونا تھا، جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسی مبارک ہستی دنیا میں نہ رہی تو اور کس کے متعلق کوئی شخص دعوے کر سکتا ہے کہ اسے یہاں ہی رہنا ہے؟ بلکہ اصل رونا اس بات کا ہے کہ دنیا نے ہمیشہ بھلے آدمیوں، باخدا رہنماؤں، داعی حق تحریکوں کی قدر نہیں کی، جو ان کا بھلا چاہتے ہیں، انہی کے ساتھ عموماً برا کیا ہے۔
’اخوان‘ دنیائے عرب کی ایک ایسی دینی تحریک تھی، جو احیاء دین، اعلاء کلمۃ اللہ اور ملت اسلامیہ کی سربلندی کے لئے ابھری اور ہمارے دیکھتے دیکھتے دنیائے عرب پر چھا گئی، قریب تھا کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتی اور بڑی طاقتوں کی سیاسی داشتہ یہود جیسی منحوس ریاست کا بھی ہمیشہ کے لئے قلع قمع ہو جاتا لیکن مغربی سامراج اور دین محمد علی صاحبہا الف الف صلوٰۃ وسلام کی دشمن طاقتوں کی سازش کی نذر ہو گئی اور یہ سبھی کچھ انہی مصریوں اور اس کے ہمنوا دوسرے مسلمان ملکوں کے ہاتھوں ان کو سولی پر لٹکوا کر ان کی دنیا، آخرت اور تاریخ کو سیاہ کیا۔
اسی طرح حجاز میں ’’محمد بن عبد الوہاب‘‘ رحمۃ اللہ علیہ کی جو تحریک اُٹھی وہ بھی اپنے ہی بھائیوں کے ہاتھوں حجاز تک محدود ہو کر رہ گئی، ترکیوں، مصریوں اور عجمیوں نے اس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کیں، متحدہ ہندوستان کے رضا خوای اور برخود غلط بریلوی لوگوں سے بدخواہوں نے بڑا کام لیا۔ ورنہ پورا عالمِ اسلام ’’حاملِ دین‘‘ ہوتا اور ملّتِ اسلامیہ ایک ایسی ملی وحدت سے ہمکنار ہو چکی تھی ہوتی جو بالکل ناقابلِ تسخیر ہوتی۔
ہند میں مجاہدین کی ایک جماعت نے کروٹ لی تو خدا دشمن طاقتوں اور بعت کے رسیا بد نصیب لوگو نے طوفان کھڑا کر ڈالا اور ستم بالائے ستم یہ کہ ابھی تک ان ظالموں نے حق کے ان داعیوں کے ’’جرم حق‘‘ کو معاف نہیں کیا۔ ان للّٰہ وانا الیہ راجعون۔
افسوس تو یہ ہے کہ جب بھی کوئی اصلاحی تحریک شروع ہوتی ہے تو دنیا داروں سے زیادہ بزعم خود دیندار اس کا مقابلہ کرتے ہیں۔ مسلمانوں کی اس سے بڑھ کر سیاہ بختی اور کیا ہو سکتی ہے کہ ان سے خطرہ ’دین فروشوں اور سیاہ کاروں‘ کو نہیں۔ اگر ہے تو صرف ’حاملِ اسلام تحریکوں‘ کو!! ان کی اکثریت شعبدہ باز سیاسی مداریوں کے پٹارے کی چیز ہو کر رہ گئی ہے۔ اگر کوئی خدا کا نام لیتا ہے تو بقول اکبر الٰہ آبادی مرحوم ؎
لوگوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا کر کے تھانے میں
کہ اکبرؔ نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں