کتاب: محدث شمارہ 31 - صفحہ 5
﴿قَالَتِ الْیَھُوْدُ لَیْسَتِ النَّصَارٰی عَلٰی شَیْءٍ﴾ (بقرہ) اور اپنی تمام تر بد کرداریوں کے باوجود سدا اس موڈ میں رہتے تھے کہ لوگ ان کے گن گائیں:- ﴿یُحِبُّوْنَ اَنْ یُّحْمَدُوْا بِمَا لَمْ یَفْعَلُوْا﴾ (آل عمران) اپنی حماقتوں کے سلسلے میں یہ خوش فہمی رکھتے تھے کہ خیر سلّا ہے، معاف ہو جائیں گی۔ ﴿وَیَقُوْلُوْنَ سَیُغْفَرُلَنَا ﴾(الاعراف) لوگوں کا استحصال کرتے اور ناحق ان کے مال کھاتے تھے: ﴿وَاَکْلِھِمْ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ﴾ (۴/۱۶۱) جھوٹ موٹ پر جان چھڑکتے اور حرام کو شیرِ مادر سمجھتے تھے: سَمّٰعُوْنَ لِلْکَذِبِ اَکّٰلُوْنَ لِلْسُّحْتِ (۵/۴۲) عہد شکن لوگ ہیں: ﴿ اَوَ کُلَّمَا عٰھَدُوْا عَھْدًا نَبَذَہ فَرِیْقٌ مِّنْھُمْ﴾ (بقرہ) ﴿ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْ مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ﴾ (بقرہ) مرضی کے خلاف خدا بھی آکر کہے تو اکڑ جاتے ہیں: ﴿اَفَکُلَّمَا جَآءَکُمْ رَسُوْلٌ بِمَا لَا تَھْوٰٓی اَنْفُسُکُمُ اسْتَکْبَرْتُمْ ﴾(بقرہ) بعض کو صرف جھٹلاتے اور بعض کو قتل بھی کر ڈالتے: ﴿فَفَرِیْقًا کَذَّبْتُمْ وَفَرِیْقًا تَقْتُلُوْنَ ﴾(بقرہ) انبیاء سے احتجاج کیا کرتے تھے:﴿ لَنْ نُّوْمِنَ لَکَ حَتّٰی نَرَیٰ اللّٰہَ جَھْرَۃً﴾ (بقرہ) جہاں کیفیت یہ ہے وہاں اطاعت کا کیا سوال؟ بلکہ وہ انبیاء سے یہاں تک کھل کر کہہ دیا کرتے تھے کہ ہم خود صاحب علم و فہم ہیں آپ کے محتاج نہیں ہیں: ﴿قَالُوْا قُلُوْبُنَا غُلْفٌ﴾ (بقرہ) الٹ کرنا ان کی فطرت تھی: ﴿فَبَذَّلَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا قَوْلًا غَیْرَ الَّذِیْ قِیْلَ لَھُمْ ﴾(بقرہ) ﴿قَالُوْا سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا﴾ (بقرہ) خدا نے منّ و سلویٰ یا، کہا، مسور کی دال وغیرہ چاہئے: ﴿لَنْ نَّصْبِرَ عَلٰی طَعَامٍ وَّاحِدٍ ﴾الاية (بقرہ) ٹال مٹول، بس خوئے بدرا بہانہ بسیار: گائے کے ذبح کا واقعہ ملاحظہ ہو۔ (۲/۹۶ تا ۲/۹۷) یہ بد نصیب قوم پتھر تھی بلکہ پتھروں سے بھی سخت: ﴿فَھِیَ کَالْحِجَارَۃِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَۃً ﴾(بقرہ)