کتاب: محدث شمارہ 31 - صفحہ 48
کرنا دراصل عجمی تکلفات ہیں۔ عجمی تکلف کا یہ خاصہ ہے کہ:
اصل سے نقل، فرض سے نقل، مستحب سے مباح اور سنت سے بدعت وغیرہ عزیز ہوتی ہے۔ ان کے عمل کا محرک بھی عبادت سے زیادہ خوش فہمیوں کی تسکین ہوتی ہے، اعمال میں ترقی کرنے کے بجائے، ادل بدل کر منہ کا مزہ بدلنے والی بات ہوتی ہے۔ ٹھوس پر کم اور سطحیت پر زیادہ نگاہ رہتی ہے۔ یہی کیفیت صوفیاء کے اوراد کی ہے۔ اہلِ احسان صوفیاء کے بعد عجمی ڈھب کے صوفیوں نے اذکار اور اوراد میں جن تکلفات کی بھرمار کی ہے۔ اہلِ احسان صوفیاء کے بعد عجمی ڈھب کے صوفیوں نے اذکار اور اوراد میں جن تکلفات کی بھرمار کی ہے۔ ہزار نیک نیتی کے باوجود اس میں جتنی سر دردی کی گئی ہے اسے عجمی چلّہ کشی اور رہبانیت کا چربہ ہی تصور کیجئے۔
اذکار اور اوراد سے غرض یہ ہوتی ہے کہ احساس و شعور اور اندرونی داعیہ کے ساتھ مسنون، عبارت، بزرگوں کے الفاظ یا اپنے الفاظ میں اپنے رب کے حضور میں دعا کی جائے۔ نذرانۂ عقیدت پیش کیا جائے۔ ان کی تلاوت نہیں ہوتی اور نہ ہی یہ کہیں بھی محمود اور مطلوب بات سمجھی گئی ہے۔ اس لئے ہمارا نقطۂ نظریہ ہے کہ حضرت مولانا کریم بخش مرحوم نے اس سلسلہ میں جو خیال ظاہر کیا تھا، وہ بجا اور صحیح ہے۔
ان اوارد کا سب سے بڑا ضرر یہ ہے کہ عموماً لوگ ان اوارد کی وجہ سے قرآن کی تلاوت کم کرتے ہیں اور اسی کو ہی وہ سبھی کچھ تصور کر لیتے ہیں۔ دعا کم ہوتی ہے، دعا کی تلاوت ہوتی ہے، حمد و ثنا کم کی جاتی ہے، حمد و ثنا کی تلاوت کی جاتی ہے، اظہارِ مدعا اور درخواستِ دعا کا شعور برائے نام ہوتا ہے صرف کارِ ثواب سمجھ کر اس کی رٹ ہوتی ہے۔
ہمارے نزدیک ایسی کتاب جس کے الفاظ و عبارت کی تلاوت بھی کارِ ثواب ہوتی ہے وہ صرف قرآن کریم ہے مگر اب لوگوں نے یہ خاصیت دوسرے اذکار بھی تصور کر لی ہے ۱؎۔
_____________________________________
۱؎ یعنی قرآن کریم وحی متلو(ایسی وحی جس کی تلاوت بھی مقصودہے )ہونے کی بنا پراگر معنی پر دھیان دیےبغیر بھی پڑھا جائے توباعث برکت اور کار ثواب ہے ۔اگرچہ تدبر او رتفکر سےتلاوت بہت بڑی چیز ہے لیکن دوسرے اور اوکا اگر کوئی فائدہ ہےتو اسے منعوی غورو فکر کی بدولت صرف الفاظ کی تلاوت کوئی حیثیت نہیں رکھتی حتی کہ اگر حدیث قدسی کوبھی وحی متلو کی شکل دے دی جائے تویہ صحیح نہیں ہو گا ،لہٰذا تلاوت صرف قرآن کریم کا خاصہ ہے۔( مدیر)