کتاب: محدث شمارہ 31 - صفحہ 47
اس خلا کو پر کرنے کے لئے اسلاف نے مختلف استعداد رکھنے والی تبلیغی ٹیمیں تیار کیں، جب وہ صوفیاء کے مخصوص اوراد اور مشق کا کورس پورا کر لیتے تو ان کو مختلف اکناف و اطراف میں عوام کے تزکیہ و طہارت کے لئے بھیج دیتے! اس تبلیغی ٹیم کے لئے مختلف عہدے اور منصب بھی تجویز کیے، کسی کا نام غوث، کسی کا قطب، کسی کا ابدال، کسی کا ولی الغرض مختلف ناموں سے ان کو مشخص کیا، اور باقاعدہ ان کے تبادلے بھی ہوا کرتے تھے۔ چنانچہ ان اکابر نے جو محنتیں کیں شروع میں وہ کافی معنی خیز رہیں اور کافی حد تک اس میں وہ کامیاب بھی رہے لیکن عوام سے ان کے اس رابطہ کی حیثیت ایک اخلاقی ضابطہ کی تھی، اس کی پشت پر کوئی آئینی طاقت نہیں تھی، جس کی وجہ سے ان کو اپنی محنتوں کو کنٹرول اور محفوظ کرنے کے لئے بڑی دقتوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اس لئے وہ عوام جن کی ایمانی عافیتوں کے تحفظ کے لئے ان بزرگوں نے یہ سلسلے جاری کیے تھے وہ عوام میں ’زود اعتقادی‘ کو تو جنم دے سکے جو بعد میں اکابر پرستی کی شکل میں نمودار ہوئی، لیکن اس اسلامی منہاج اور طرزِ زندگی کو وہ استواری اور ساتحکام نہ دے سکے جو خلافت جیسی آئینہ سرپرستی کے ذریعے ممکن تھی۔ اور یہ بالکل ایک قدرتی بات بھی ہے کہ:
قرآن بے سیف اور سیف بے قرآن، مومنانہ طرزِ حیات کی تخلیق اور اس میں استواری کے لئے کچھ زیادہ جاندار اور تسلی بخش سلسلے نہیں۔ قرآن باسیف کے یہ معنی نہیں کہ قرآنی فکر و عمل کا تحفظ جبر و اکراہ پر مبنی ہے بلکہ غرض یہ ہے کہ مناسب اور سازگار فضا پیدا کرنے میں خلافت جیسے اقتدار سے بڑی مدد ملتی ہے اور الناس علیٰ دینِ ملوکہم کے ذریعے ان نفسیات کو تقویت حاصل ہوتی ہے جو وسائل اور طاقت کی خوشگوار تخلیقات کہلاتی ہیں، اس کے علاوہ جو باغ لگایا جاتا ہے اس کی نگہبانی کے لئے چوکس، پر شکوہ پاسبان کی ضرورت بھی ہوتی ہی ہے۔
منزلیں، تلاوت، ختم:
قرونِ اولیٰ میں جس کتاب کے لئے منزلیں، اس کے ختم اور اس کی تلاوت مقرر تھی، وہ صرف قرآن کریم تھا، دوسری کوئی ایسی کتاب نہیں تھی جس کے لئے کسی نے اتنا اہتمام کیا ہو، یہاں تک کہ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے قرآن حکیم کے بجائے ’تورات‘ جیسی عظیم کتاب کی تلاوت کی جرأت کی تو آپ ناراض ہو گئے، دنیا جہاں میں اور جتنی کتابیں ہیں، ان کا مطالعہ تو کیا جا سکتا ہے، لیکن یہ منزلیں، وہ ختم اور یہ تلاوت؟ عاشا وکلا!......
آسمانی کتابوں کے سوا روحانیت کے تصور سے بعض دوسری کتابوں سے اس قسم کا معاملہ