کتاب: محدث شمارہ 31 - صفحہ 46
کے بے ضرر الفاظ اور جائز تراکیب کو بھی اپنے جذبات کے اظہار کے لئے بنانا چاہے تو بنا سکے، ہم بھی اس پر صاد کرتے ہیں بشرطیکہ معاملہ اسی حد تک رہے۔ اگر بات اظہار مدعا اور جذبات کی ترجمانی کے بجائے ’تلاوت‘ کا رنگ اختیار کر جائے تو ظاہر ہے کہ اسے بالکل ’کارِ ثواب‘ تصور کرنا خطرہ سے خالی نہیں ہو سکتا۔
صوفیائے کرام کے ان مخصوص اذکار و اوراد میں جو ایک بنیادی خرابی پیدا ہو گئی ہے وہ ان کے درود و وظیفہ میں عجمی تکلف ہے۔ یعنی پھر وہ وظیفوں کا ہی ہو کر رہ جاتا ہے۔ دنیائے زیست اور اس کے متعلقات اور لوازمات سے اس کا تعلق برائے نام باقی رہتا ہے۔ حالانکہ اصل تصوف یہ ہے کہ دنیا باخدا گزاری جائے لیکن اب ’بے دنیا با خدا‘ یعنی رہبانیت کی سٹیج آجاتی ہے جہاں حقوق نفس اور حقوق العباد بہت بری طرح متاثر ہوتے ہیں، بلکہ اس لحاظ سے ان کی زندگی بہت ہی غیر متوازن ہو کر رہ جاتی ہے۔
اسلامی اذکار:
مسنون اذکار و اوراد کا جو طریق کار ہے، بالکل بیساختہ اور قدرتی ہے۔ اٹھتے بیٹھے، چلتے پھرتے، گھر اور باہر، مسجد اور میدان اور مخصوص اوقاتِ عبادت میں ان کو پھیلا کر آسان کر دیا گیا ہے۔ لیکن جن لوگوں نے دلائل الخیرات اور حزب البحر وغیرہ جیسے اذکار کو یکجا کر کے ان کے لئے مختلف منزلیں اور ختم تجویز کیے ہیں انہوں نے دراصل اذکار مسنونہ کی اس فطری آزادی، اس کے بیساختہ پن اور یُسر جیسی حکمتِ عملی کو غارت کیا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ان حضرات کی اس غیر حکمتِ عملی کی وجہ سے عام دنیا کو اسلام بہت ہی بوجھل اور مشکل محسوس ہونے لگا ہے تو کچھ زیادہ مبالغہ بھی نہیں ہو گا۔
بوجھل اذکار کا پس منظر:
جہاں تک صوفیائے کبار کا معاملہ ہے یہی محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے ان اذکار کو ’عوامی وظیفہ‘ کی شکل میں پیش نہیں کیا تھا بلکہ انہوں ن یہ اوراد اور وظائف اپنے ان تلامذہ اور طلبہ کے لئے ایک غیر سرکاری تربیتی کورس کے طور پر تجویز اور تشخیص کیے تھے جن سے انہیں ’عوامی تعلیم و تربیت اور تبلیغ‘ کا کام لینا تھا جیسا کہ درس نظامی کا معاملہ ہے۔ یہ علماء کے لئے علمی کورس ہے، عوامی ضرورت اور ان کے دائرۂ معمولات کے اعتبار سے یہ دوسرے کے لئے بالکل ایک غیر متعلق شے ہے۔
جب اسلامی حکومت پر زوال آیا، خلفاء برحق کے بجائے بادشاہوں کا سلسلہ چل نکلا تو تزکیہ و طہارت کا وہ فریضہ جو خلافت کے فرائض منصبی میں داخل تھا اب وہ بھی متروک ہو گیا تھا، چنانچہ