کتاب: محدث شمارہ 31 - صفحہ 4
کی سرکردگی میں اسے فتح کیا۔ اس کے بعد متعدد بار یہاں سے نکلتے اور آتے رہے۔ جم کر رہنے کا کبھی بھی ان کو موقعہ نہیں ملا تھا۔ اگر کبھی کبھار قبضہ کر کے کچھ عرصہ رہنے سے آپ پورے فلسطین کے اصلی مالک اور وارث بن سکتے ہیں تو جن مسلمانوں نے صدیوں یہاں ڈیرے الے ہیں ان کو اس کا کیوں حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس کے وارث کہلائیں اور یہ بجائے خود حقیقت ہے کہ یہاں پر باہر سے مسلمان درآمد نہیں کیے گئے تھے بلکہ وہاں کی مقامی آبادی ہی مسلمان ہو گئی تھی۔ اگر سارے باہر سے درآمد کیے گئے ہوتے تو ان پر شاید آپ کے اعتراض کی بھی گنجائش نکل سکتی۔
دراصل یہود ایک بہانہ باز اور حیلہ گر قوم ہے خوئے بدرابہانہ بسیار، کے مطابق خانہ ساز مفروضے تیار کر کے اس نے فلسطین پر قبضہ جمانے کی کوشش کر رکھی ہے۔ گو اب وہ اپنے مقصد میں کافی حد تک کامیاب بھی ہو گئے ہیں اور ایسے ہی حالات پیدا کر کے وہ اپنی بات عربوں سے منوا سکتے تھے جو حالیہ جنگ کی صورت میں انہوں نے پیدا کیے ہیں۔ جس کا ہمیں حد درجہ صدمہ ہے کہ سو پیاز بھی پورے ہوئے اور سو ڈنڈے بھی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون!
بہرحال ہم اس کے حق میں نہیں ہیں کہ یہودیوں کی ریاست قائم ہو یا عرب اس کی آئینی حیثیت تسلیم کر کے آئینی جواز اس کو مہیا کریں۔ کیونکہ یہ قوم مکار، مفسد، حیلہ گر، سرکش، تخریب پسند، منافق، ملعون، محرّف، جرائم پیشہ اور جارح ہے۔ یہ جہاں بھی قدم رکھیں گے، خیر نہیں ہو گی۔ ان کے بار میں قرآن حکیم نے جو ریمارکس دیئے ہیں وہ واضح اور حد درجہ بصیرت افروز ہیں۔
قرآنِ حمید کا اصرار ہے کہ یہ ملعون قوم ہے: ﴿بَلْ لَّعَنَھُمُ اللّٰہُ بِکُفْرِھِمْ﴾ (۲/۸۸)
مقام و مرتبہ کے لحاظ سے بدترین لوگ ہیں: ﴿اُوْلٰٓئِکَ شَرٌّ مَّکَانًا﴾ (۵/۶۰)
راہِ راست سے دور: اَضَلُّ عَنْ سَوَآءِ السَّبِیْلِ (۵/۶۰)
حق کا انکار، جان بوجھ کر اور صرف ذاتی شمنی اور ضد کی بنا پر کیا کرتے تھے:
وَاٰتَیْنٰھُمْ بَيِّنٰتٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَمَا اخْتَلَفُوْا اِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَآءَھُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَھُمْ (۴۵/۱۷)
یعنی انکار کی وجہ صرف یہ ہوتی تھی کہ، بات دوسرے قبیلے کے کسی فرد کے منہ سے نکلی ہے، یعنی وہی سراپا نسلی خمار۔
اپنے بارے میں وہ اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ وہ خدا کے چہیتے اور روحانی اولاد ہیں:
﴿نَحْنُ اَبْنَآءُ اللّٰہِ وَاَحِبَّآءُہ﴾ (قرآن)
دوسروں کے متعلق ان کا نعرہ تھا کہ وہ سب دوزخی ہیں: