کتاب: محدث شمارہ 31 - صفحہ 39
جناب اختر راہیؔ (ایم۔ اے) سلسلہ مصنفین درس نظامی علامہ سعد الدین تفتازانیؔ آٹھویں صدی ہجری کے مسلمان حکماء میں علامہ تفتازانی کا نام نہایت نمایاں ہے۔ ان کا نام مسعود اور لقب سعد الدین تھا۔ وہ خراسان کے شہر تفتازان میں صفر المظفر ۷۲۲؍ فروری۔ مارچ ۱۳۲۲ء میں پیدا ہوئے۔ تفتازانی نے ابتدائی تعلیم اپنے وطن میں پائی۔ اعلیٰ تعلیم عضد الدین ایجی مؤلف ’’مواقف‘‘ (م ۷۵۶ھ)سے پائی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے قطب الدین رازی (م ۷۶۶ھ)سے بھی استفادہ کیا تھا۔ تفتا زانی نے جملہ مروجہ علوم صرف و نحو، منطق و فلسفہ، معانی و بیان اور اصول و تفسیر میں کمال حاصل کیا۔ ان کی شہرت جلد ہی دور دور تک پھیل گئی اور طلبہ ان سے استفادے کے لئے رجوع کرنے لگے۔ تفتازانی کی تصانیف سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے مختلف شہروں میں قیام کیا۔ وہ جام، ہرات، سرخس، سمر قند، جبرون، ترکستان اور خوارزم میں مقیم رہے۔ تدریس کے ساتھ ساتھ تفتا زانی نے مظفریہ حکمران فارس شاہ شجاع کے دربار میں ملازمت اختیار کر لی۔ تیمور نے ۷۸۰ یا ۷۸۱ھ میں خوارزم پر حملہ کیا اور شاہ شجاع کی سلطنت متاثر ہوئی۔ اس زمانے میں ملک محمد سرخسی نے اپنے بھتیجے محمد بن غیاث الدین کو لکھا (جو اس وقت تیمور کا درباری تھا)کہ تیمور سے منظور لے کر تفتا زانی کو سرخس بھیج دیا جائے۔ چنانچہ تفتازانی ملک محمد سرخسی کے پاس سرخس چلے گئے۔ کچھ عرصہ بعد امیر تیمور کو تفتازانی کے علم و فضل سے آگاہی ہوئی تو انہیں واپس سمر قند بلا بھیجا۔ تفتا زانی نے پہلے تو عذر کیا کہ وہ حجاز جانے کا ارادہ رکھتا ہے مگر مکرر طلبہ پر سمر قند چلا گیا۔ تیمور نے اپنے دربار میں صدر صدور کی حیثیت سے جگہ دی۔ ۷۸۹ھ/ ۱۳۸۹ء میں شیراز فتح ہونے پر سید شریف جرجانی (م ۸۱۶ھ)بھی تیمور کے دربار سے منسلک ہو گیا۔ دونوں حکماء میں معاصرانہ چشمک پائی جاتی تھی جس کا اظہار جرجانی کی تالیفات میں تفتا زانی کے افکار و نظریات پر تنقید سے ہوتا ہے۔ تفتا زانی اور سید شریف جرجانی کے مابین اکثر علمی مباحثے اور مناظرے ہوتے تھے۔ ۷۹۱ھ میں اس مسئلے میں کہ ’’اللہ تعالیٰ کے اس قول میں﴿ اُوْلٰٓئِکَ عَلٰی ھُدًی مِّنْ رَّبِّھِمْ﴾ میں علامہ جار اللہ زمخشری (م ۲۸ھ)کے قول کے مطابق استعارہ تبعیہ اور استعارہ تمثیلیہ دونوں جمع ہو گئے ہیں۔‘‘ مناظرہ ہوا اور نعمان الدین الخوارزمی