کتاب: محدث شمارہ 31 - صفحہ 38
۲۴۔ ایک پادری کی حیثیت سے مجھے دوسروں کو ان باتوں کی تعلیم دینا پڑتی تھی جن کو میں خود نہ سمجھتا تھا اور میں دوسروں کو ان باتوں کی ترغیب دیتا تھا جنہیں میں خود دل سے تسلیم نہ کرتا تھا۔ اس کشمکش کے ماحول میں میرے ضمیر نے مجھے تحقیق و تجسس پر ابھارا اور دیگر مذاہب کا مطالعہ کرنے کے بعد آخر کار میں نے اسلام میں تمام حقائق پا لیے اور مجھے تسلیم کرنا پڑا کہ اسلام کامل مذہب ہے۔
۲۵۔ میں اسلام کی اس لئے تعریف کرتا ہوں کہ یہ کسی خاص ملک و ملت کا نہیں بلکہ ہمہ گیر اور عالمگیر مذہب ہے۔
۲۶۔ میں نے بڑے عرصہ تک اسلام کا مطالعہ کیا ہے، جو روحانی اور اخلاقی خوشی و مسرت اور اطمینانِ قلب مجھے یہاں میسر آیا ہے کسی اور مذہب میں نہیں آیا۔
۲۷۔ میں ہمیشہ سے ایسے امن اور آشتی کا متمنی رہا ہوں۔ جو بالآخر مجھے گوشہ اسلام میں میسر آئی یہ سراسر فطری اور رحمت و آشتی کا مذہب ہے۔
۲۸۔ میں مسلمان ہونے پر بڑا فخر محسوس کر رہا ہوں۔ قرآن حکیم نے مذہب اسلام کی جو تعلیمات دی ہیں، ان کو بہت واضح فطرت کے عین مطابق اور پوری طرح قابلِ عمل پاتا ہوں۔ مذہبِ اسلام میں خاص طور پر خواتین کو معزز درجہ دیا گیا ہے وہ عورتوں کے حق میں مساوات کا اس حد تک حامی ہے کہ اس کی مثال دنیا کے کسی دوسرے مذہب میں نہیں ملتی۔
۲۹۔ جو شخص بھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم عرب کے جلیل القدر پیغمبر کی حیاتِ مقدسہ، آپ کے عظیم کردار اور عمل کا مطالعہ کرتا ہے اور یہ جانتا ہے کہ پیغمبر اسلام نے کس طرح اپنی دعوت کو پیش کیا اور کس طرح اپنی پاکیزہ زندگی بسر کی۔ اس کے لئے اس کے بغیر چارہ ہی نہیں کہ وہ اس عظیم اور جلیل پیغمبر کی عظمت اور عزت اپنے دل میں محسوس کرے اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے رسولوں میں بڑی ہی عزت والے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ میں جو کچھ آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں آپ میں سے اکثر اصحاب شاید اس سے واقف بھی ہوں۔ لیکن میری تو یہ حالت ہے کہ میں جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ پاک کا مطالعہ کرتا ہوں تو میرے دل میں عرب کے اس عظیم اور لاثانی نبی کی نئی عظمت اجاگر ہو جاتی ہے۔
۳۰۔ اسلام کی عبادت و ریاضت میں انتہائی خضوع و خشوع اور سادگی و خلوص کو دیکھ کر مجھ میں یہ احساس پیدا ہوا ہے کہ اسلام دنیا کا اعلیٰ ترین مذہب ہے۔
۳۱۔ میں اسلام کے سچے سیدھے سادھے کھرے اور فطری دین میں داخل ہو کر خوشی محسوس کرتا ہوں۔ یہ دین تحکمانہ عقائد سے پاک ہے۔ اس میں ملا گری، پروہتائی یا پادریانہ نظام نہیں ہے۔ اس کی عالی ظرفی اور لچکدار اصولوں نے میری عقل و دانش کو اپیل کیا۔
۳۲۔ قرآن کریم بلاشبہ خدائے بزرگ و برتر کی طرف سے نسل انسانی کی رہنمائی کے لئے نازل ہوا ہے۔ اسلام کی عالی ظرف تعلیمات قرآن کریم کے بغور مطالعہ کا باعث ہوئیں اور انہیں فطری اور عقلی پا کر میں نے سچے دل سے ۱۸ دسمبر ۱۹۶۴ کو اسلام قبول کر لیا اور اسلام کی تبلیغ کرنے میں اپنی جان مال عزت کو تادمِ زیست وقف کر دیا ہے۔ اللہ قبول کریں اور توفیق ارزاں فرمائیں۔ آمین۔