کتاب: محدث شمارہ 31 - صفحہ 34
کو پسپا کرنے کے لئے کچھ نہیں کیا۔ اس نے اور دیگر مغربی طاقتوں نے انڈونیشیا سے ناک چنے چبوائے، اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ تب جا کر قرضوں کی ادائیگی میں مہلت دی اور ناکافی بعد از وقت اقتصادی امداد دی۔ اہم بات یہ ہے کہ اس اقتصادی امداد میں تبشیری اداروں کو باقاعدہ شریک کیا گیا۔ اس اقتصادی امداد کے ذیل میں بہت سے پروگرام ایسے ہیں جن کی نگرانی براہِ راست مبشرین کو سونپی گئی ہے۔ مثلاً بون کی حکومت نے جو اٹھارہ ملین مارک کی رقم دی ہے وہ مبشرین کے تصرف میں ہے۔ انڈونیشیاء کے وہ علاقے جہاں کے باشندے ہر دین سے نا آشنا ہیں۔ مثلاً کالیمانتان کے دایاک قبائل وہاں کلیسا کے لوگ ’’اغراء‘‘ یعنی مادی فوائد کا لالچ بیش از بیش لئے ہوئے پوری طرح چھائے ہوئے ہیں۔ کالیمانتان کے علاقہ میں حمل و نقل نہروں کے ذریعہ ہوتا ہے جس میں خاصی دشواری ہوتی ہے اور بہت وقت لگتا ہے۔ کلیسا کے کارندے چھوٹے جہازوں کے مالک ہیں اور ہر قسم کی مشینیں اور آلات رکھتے ہیں۔ جولائی ۱۹۷۲ء میں جاکارتا کے اخباروں نے یہ خبر شائع کی تھی کہ کیتھولک مشن نے انڈونیشی حکومت کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے جس کی رُو سے کیتھولک مشن کو یہ حق ہو گا کہ غذائی مواد اور دوائیں ڈیوٹی سے مستثنیٰ درآمد کرے اور کالیمانتان کے علاقہ میں پہنچائے۔ پنجسالہ منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے میں بھی کلیسا نے اپنے ’تعاون‘ کی پیش کش کی ہے۔
جب کبھی مسلمانوں کے جذبات مشتعل ہو جاتے ہیں اور وہ اسلام کے دفاع کا حق استعمال کرتے ہیں تو تبشیری ادارے ساری دنیا میں شور مچاتے ہیں کہ مذہبی رواداری نہیں اور آزادیٔ ضمیر اور انسانی حقوق کا خون ہو رہا ہے۔ یہ آزادیٔ ضمیر کا نعرہ وہی لگاتے ہیں جو بڑی ڈھٹائی اور بے شرمی سے انسانی ضمیر خریدتے پھرتے ہیں۔ لیکن انڈونیشی حکومت اس پروپیگنڈے سے ڈرتی ہے۔ اور یہی اصل کمزوری ہے۔
انڈونیشیا اس شد و مد سے موضوع بحث بنا رہا اور انڈونیشیا کے نمائندے مہر بلب بیٹھے رہے۔ (باقی آئندہ)