کتاب: محدث شمارہ 31 - صفحہ 32
اقتصادی بدحالی سے دین اسلام کو بڑے پیمانہ پر مستقبل قریب میں کیا خطرہ لاحق ہے۔ اس کی نمایاں مثال انڈونیشیا ہے۔ سارے اجتماع میں اس کا بڑا چرچا رہا اور گہری تشویش کا اظہار کیا گیا کہ عیسائی تبشیری اداروں نے مل کر دس سے بیس سال کے عرصہ میں انڈونیشیا کو عیسائی بنانے کا ایک زبردست جامع منصوبہ تیار کیا ہے۔ یہ ’‘اندیشہ ہائے دور دراز‘‘ نہیں بلکہ ایک ٹھوس حقیقت ہے جو ضبطِ تحریر میں آچکی ہے اور جس پر انڈونیشیا کی موجودہ حکومت کی مجبوریوں اور کمزوریوں سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے عمل بھی شروع ہو گیا ہے۔ استاد علال فاسی نے تاریخ پس منظر کے ساتھ صورتِ حال کی عالمانہ تحلیل کی اور تفصیل کے ساتھ پورے وثوق سے لکھا: پہلی عالمی جنگ سے قبل ہی ہالینڈ نے انڈونیشیا کے باشندوں کو بالکل الگ تھلک کر دیا اور عالمِ اسلامی سے ان کا تعلق منقطع کر دیا حتیٰ کہ اسلامی لٹریچر بھی ان تک پہنچنا دشوار کر دیا۔ اس طرح استعمار نے عیسائیت کے حملہ کی راہ ہموار کی۔ طویل جہاد کے بعد انڈونیشیا آزاد ہوا۔ جمہور نے اکثریت کے ساتھ مسجومی پارٹی کو چنا، جو اسلامی وطنی بنیاد پر قائم تھی اور جس کے صدر محمد ناصر تھے۔ فوراً ہی ہندوستان اور ہالینڈ نے سو کارنو کو آگے بڑھایا اور ان کی زبردست مالی امداد کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دوسرے انتخابات میں اکثریت حزب وطنی کو حاصل ہوئی جس کے صدر حتّا ہیں۔ گو حتّا اپنی ذات سے نیک دل مسلمان ہیں لیکن سوکارنو کے طرزِ عمل نے مخلص مسلمانوں اور اشتراکیوں کو بغاوت پر مجبور کر دیا۔ اور وہ ان مسلمانوں سے جا ملے جو پہاڑوں میں اپنا مرکز قائم کیے ہوئے اسلامی حکومت کا مطالبہ کر رہے تھے۔ مسجومی پارٹی سے نمٹنے کے لئے سوکارنو نے عوامی چین کی حکومت سے ایک معاہدہ کیا۔ جس کی رو سے کئی ملین انڈونیشیا میں بسنے والے چینیوں کو انڈونیشی جنسیت (نیشنلٹی)سے نوازا گیا اس سے انڈونیشی کیمونسٹ پارٹی کو اتنی تقویت ہوئی کہ وہ ملک کی تیسری پارٹی شمار ہونے لگی۔ سوکارنو نے ادھر کیمونسٹوں سے ساز باز کی، ادھر جمعیۃ العلماء کے نام سے ایک اسلامی جماعت قائم کی۔ اس طرح یہ تین جماعتیں حکومت کی مالک بن بیٹھیں اور انہوں نے حزبِ اشتراکی اور دیگر جماعتوں کو کالعدم کر دیا اور حفظِ امن کے بہانے اسلامی جماعتوں اور اداروں کا گلا گھونٹ دیا۔ بالآخر اسلامی حمیت رکھنے والے طلبہ سوکارنو اور ان کے حلیف کیمونسٹوں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے۔ اس کے بعد چاہیے تو یہ تھا کہ جمہور کو ایک مرتبہ پھر نئی حکومت منتخب کرنے کا حق دیا جاتا، لیکن ہوا یہ کہ چونکہ فوجی جنرل طلبہ کی بغاوت میں شامل تھے اور اس وقت سوہارتو کو طلبہ کا اعتماد حاصل تھا اس لئے وہ بآسانی صدارت پر قابض ہو گئے۔ انہوں نے ملک میں ایسی حکومت بنائی جو دائیں بازو کی ہے نہ بائیں بازو کی۔ البتہ اس پرامریکہ اور مغربی طاقتوں کی دخل اندازی کا خوف چھایا ہوا ہے۔ اس کے نتیجہ میں اس نے