کتاب: محدث شمارہ 31 - صفحہ 31
’اغراء‘ کا طریقہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ اغراء یہ ہے کہ وہ مسلم عوام کے فقر و افلاس سے ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہیں اورمادی منافع اور دنیاوی جاہ و عزت کا لالچ دے کر انہیں عیسائی بناتے ہیں۔ مسلم ممالک کو مغربی قوموں سے جو مختلف قسم کی امداد ملتی ہے اور ناگہانی آفات ارضی و سماوی، طوفان و سیلاب میں ان کی طرف سے انسانی ہمدردی کے نام پر جو کام کیے جاتے ہیں، ان سب میں سیاسی مقاصد تو پنہاں ہوتے ہی ہیں۔ تبشیری ادارے بھی کسی نہ کسی شکل میں حصہ لگاتے ہیں اور اپنے مقاصد کو فروغ دیتے ہیں۔ پاکستان میں گزشتہ بیس پچیس سال کے عرصہ میں عیسائیت کو جو غیر معمولی فروغ ہوا ہے وہ اسی طریقے سے ہوا ہے۔ مناظرہ ایک بھی نہیں ہوا۔
اور اغراء کا عمل شہر کے نچلے طبقوں میں اور گاؤں گاؤں مصیبت زدہ لوگوں میں ہوتا رہا جس کے نتائج آج آنکھوں کے سامنے ہیں (کراچی میں جب خاکروب اسٹرائک کرتے ہیں و اس کے پیچھے پیرانِ کلیسا کا ہاتھ ہوتا ہے)کبھی کبھی جب عیسائی مشنریوں کی کار روائیاں سیاسی رنگ اختیار کر لیتی ہیں تو ہندوستان کی حکومت بھی ان کے خلاف اقدام کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ مسلمانوں نے بھی عیسائیوں کی دیکھا دیکھی اور بالکل کلیسا کے نمونہ پر پیشہ ور اسلامی مبلغین کی ایک جماعت تیار کی ہے جسے جائز اور ناجائز طریقوں سے دولت اکٹھا کرنے والے سیٹھ مال فراہم کرتے ہیں۔ یہ اسلامی مبلغین اپنے گھر کو بلا مزاحمت عیسائی مشنریوں کے حوالہ کر کے افریقہ جیسے دور دراز ممالک کے دورے کرتے ہیں، نہ تو عیسائی مشنریوں کی طرح مقامی زبانیں سیکھتے ہیں، نہ جنگلی غیر متمدن علاقوں میں رہنے کے لئے اپنی عمر وقف کرتے ہیں۔ بس چند دن میں دین اور دنیا کی بھلائی کما کر واپس آجاتے ہیں۔ اس عمل کی اپنی جگہ جو بھی وقعت ہو، کیا اسلام کی خدمت میں اس کو اولیت اور اہمیت حاصل نہیں کہ اسلامی معاشرہ سے فقر، افلاس، جہل اور مرض کا خاتمہ کیا جائے جس سے مشنریں کو ’’اغراء‘‘ کے سراسر غیر اخلاقی عمل سے روکنے کے لئے سخت سے سخت اقدام کریں۔ لیکن آخر ایسا کیوں ہے کہ اسلامی معاشرہ کا والفقر یکون کفرا (فقر اور کفر میں بہت تھوڑا فرق ہتا ہے)کی تفسیر بنا ہوا ہے۔ کیا یہ بھی تقدیر کا لکھا ہے جو بدل نہیں سکتا۔
استاذ عثمان الکعاک نے بھی اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ پہلے درجہ میں اسلامی معاشرہ کو صحیح اسلامی بنیادوں پر استوار کیا جائے اور مسلمانوں میں صحیح اسلامی تعلیم رائج کی بجائے، جب ایسا ہو گا تو اسلام آپ اپنا اعلان و اشتہار ہو گا، اسے کسی پروپیگنڈے کی ضرورت نہ ہو گی اور اس کی خوشبو خود بخود پھیلے گی۔ اس کے بعد ہی دوسرے درجہ میں تبلیغ موثر و فعال ہو گی اور آسان بھی۔