کتاب: محدث شمارہ 31 - صفحہ 30
کو مردہ کرنے کی ایک سازش ہے۔ یہ ادارہ جو ترجمے کراتا ہے اس میں سے کچھ پروپیگنڈے کے کام آتے ہیں۔ باقی ردی میں جاتے ہیں اور کوئی انہیں مفت بھی نہیں لیتا۔ اس سب سے صرف اتنا مقصد حاصل ہوتا ہے کہ ادیب امریکہ کے نمک خوار بن جاتے ہیں اور ان کی تخلیقی صلاحیتیں ٹھٹھر کر رہ جاتی ہیں۔ اسی طرح کچھ اور علمی ادبی تحریکیں ہیں جو ’’فکرِ مستعار‘‘ کو ’’فکر نو‘‘ سمجھتی ہیں اور باہر سے آنے والے وحی اور بسا اوقات ’’حقِ خدمت‘‘ کی منتظر رہتی ہیں۔ خیر! الجزائر کے اجتماع میں علمی ادبی تحریکوں کا محض ضمنی طور پر ذکر ہوا، اصل موضوع ماسونیت، روٹری کلب، لائنز کلب تھا۔ تمام مندوبین کی متفقہ رائے تھی کہ مسلم حکومتوں کو اس سلسلے میں تاخیر نہیں کرنا چاہئے۔ اور ان سب تحریکوں کے خلاف سخت اقدام کرنا چاہئے۔ میں نے جب اپنی تقریر کے دوران بتایا کہ حکومت پاکستان نے ماسونی(Masonic)تحریک پر پابندی لگا دی ہے، اسے خلافِ قانون قرار دے دیا ہے اور اس کی تمام املاک ضبط کرنے کا حکم صادر کر دیا ہے تو سارا ہال تالیوں سے گونج اُٹھا، پیچھے بیٹھے ہوئے نوجوان طالب علموں نے تحسین و آفرین کے نعرے بھی بلند کیے۔ تقریر کے بعد مندوبین نے دلی مسرت کا اظہار کیا، ساتھ ہی ساتھ افسوس بھی کیا کہ اس قسم کی خبریں ان تک پہنچنے کا کوئی ذریعہ نہیں۔ جن کا کام ہے کہ خبریں پہنچائیں وہ بھی نہیں پہنچاتے۔ بعض کا مشورہ تھا کہ جب حکومتِ پاکستان نے یہ اقدام کیا ہے تو اس کے سامنے ضرور اس تحریک سے متعلق ٹھوس حقائق ہوں گے۔ حکومت پاکستان کیوں ان حقائق سے دوسرے ممالک کو آگاہ نہیں کرتی؟ یہ کام خالص ڈپلوماسی طریقوں سے ہی انجام پا سکتا ہے۔ بعض مندوبین کا اصرار تھا کہ اتنا کافی نہیں، جو لوگ اس تحریک سے وابستہ رہے ہیں انہیں کیفر کردار تک پہنچانا چاہئے۔ خلافت عثمانیہ کے زوال میں ماسونیت کا جو حصہ ہے اور عالمی صیہونیت سے اس کا جو رشتہ ہے اس کے پیش نظر اس تحریک کے ساتھ وابستگی کو دین و وطن سے غدّاری کے مترادف قرار دیا جانا چاہئے۔ اس پر سب کا اتفاق تھا کہ اتنی آنکھیں کھل جانے کے بعد روٹری اور لائنز کے ساتھ نرمی برتنا حماقت ہے، بلکہ اندیشہ ہے کہ جو لوگ بغیر سزا پائے ماسونیت سے نکلیں گے وہ روٹری اور لائنز میں پناہ لیں گے اور ان کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنائیں گے۔ تبشیر و استعمار کی بحث شاخ در شاخ پھیلتی چلی گئی۔ بہت سے پہلو اجاگر ہوئے جو عام نظروں سے پوشیدہ رہتے ہیں اور جن کا صحیح اندازہ صرف علماء ہی کر سکتے ہیں۔ لیکن آخر میں جب پیشہ ور اسلامی مبلغین شریک ہوئے تو یکایک بحث کا معیار گرا اور محض سطحی اور جذباتی ہو گیا۔ ایسا معلوم ہونے لگا کہ مناظرہ ہو رہا ہے۔ اور عیسائی پادریوں کو ان کی عدم موجودگی میں شکست پر شکست دے کر پسپا کیا جا رہا ہے۔ میں نے توجہ دلائی کہ مناظروں کا زمانہ کب کا لد چکا۔ اب تبشیر نے بالخصوص اسلامی ممالک کی نام نہاد سیاسی آزادی کے بعد سے اپنی تکنیک یکسر بدل دی ہے۔ اب مبشرین ’اقناع‘ یعنی دلیل اور حجت سے قلب کو مطمئن کرنے کے بجائے