کتاب: محدث شمارہ 31 - صفحہ 29
تبشیر اور استعمار کے ذیل میں ان فرقوں کا بھی ذکر آیا جو دورِ جدید میں مسلمانوں میں پیدا ہوئے اور جنہیں استعماری طاقتوں کی سرپرستی حاصل ہوئی۔ استعماری طاقتوں نے ایک طرف تو عیسائیت کے پرچار کے ذریعہ اسلام پر باہر سے حملہ کیا، دوسری طرف مسلمانوں کو اندر سے کمزور کرنے کے لئے نئے نئے فرقوں کی سرپرستی کر کے اسلام کو گندا کیا اور مسلمانوں کی یک جہتی ختم کی۔ اس کی سب سے نمایاں مثال ’’بہائیت‘‘ ہے۔ چنانچہ ایران کی تاریخ بتاتی ہے کہ دین میں تحریف ہونے کے ساتھ ساتھ یہ فرقہ ایران کی سلامتی کے لئے ایک سیاسی خطرہ ثابت ہوا۔ بہائیت کے بعد دوسرا نام قادیانیت کا آیا۔ ایک نہیں متعدد مندوبین نے تفصیلی معلومات کے ساتھ اور بڑے جذباتی انداز میں بہائیت اور قادیانیت کو ایک ہی خانہ میں رکھا اور کہا کہ قادیانیت پاکستان (باقی ماندہ پاکستان)کے لئے ویسا ہی خطرہ ہے جیسا بہائیت ایران کے لئے۔ میرے لئے یہ چیز خاصی تعجب انگیز تھی اس لئے کہ آٹھ نو برس پہلے کا میرا تجربہ یہ تھا کہ عربوں کو قادیانیت سے نہ دلچسپی تھی نہ اس کی بابت معلومات۔ جب میں نے سراغ لگایا تو اندازہ ہوا کہ یہ سب مولانا ابو الحسن علی ندوی کی تحریروں اور تقریروں کا اثر ہے۔ جو حکومتیں بین الاقوامی تعلقات میں ایک پیشہ ور فارن سروس پر تکیہ کرتی ہیں ان کے لئے اس میں ایک سبق ہے۔ فارن سروس نہ تو دوسرے ملکوں کی زبان جانتی ہے، نہ ان کی تاریخ سے واقفیت رکھتی ہے، نہ ان کے حال سے باخبر ہوتی ہے۔ ایک مقررہ ضابطہ کے مطابق انگریزی زبان میں دوسرے ملکوں کی وزارتِ خارجہ سے تعلق رکھتی ہے اور بس۔ یہ کام علماء کا ہے کہ وہ دوسرے ممالک کے علماء اور عوام سے رابطہ قائم رکھیں۔ وہ حکومتیں جنہیں اپنے ملک کا مفاد عزیز ہوتا ہے وہ علماء کو نظر انداز کرنے کے بجائے ان کے مشورے سے فائدہ اُٹھاتی ہیں۔ خدا کرے ہماری حکومت قادیانیت کے بارے میں عرب علماء اور عوام کے بڑھتے ہوئے جذبات سے باخبر ہو۔ حقائق کا علم ہر شعبۂ زندگی میں مفید ہوتا ہے۔ آٹھ نو سال پہلے سر محمد ظفر اللہ کی ان خدمات کا ذکر ہوتا تھا جو انہوں نے اقوام متحدہ میں عربوں کی حمایت کے لئے انجام دی تھیں، آج اس کے ساتھ ساتھ قادیانیت پر بھی تبصرہ ہوتا ہے۔ حکومتیں ڈپلو ماسی زبان بندی اور احتیاط پر عمل پیرا ہیں۔ اس سے دھوکہ نہیں کھانا چاہئے۔ بات آگے بڑھی اور ان تحریکات تک جا پہنچی جن سے انسان دوستی کا پردہ چاک ہو چکا ہے اور تخریب کاری عیاں ہو چکی ہے۔ ان میں سرفہرست ماسونیت (Masonic)تحریک اور اس کے بعد روٹری کلب، لائنز کلب اور بعض نام نہاد علمی اور ادبی تحریکیں سب شامل تھیں۔ پاکستان میں کم لوگ جانتے ہیں کہ چند سال پہلے عرب ادیبوں نے فرینکلن فاؤنڈیشن کے خلاف شور اٹھایا تھا کہ امریکی بخشش کے سہارے جینے کا عادی بنانے اور عرب ضمیر