کتاب: محدث شمارہ 31 - صفحہ 28
جس شام ڈینس واکر نے مقالہ پڑھا اسی روز صبح حکومت الجزائر کی طرف سے بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کا اعلان ہوا تھا۔ ڈینس واکر نے اس فیصلہ کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ مسلم ممالک کی بے تعلقی بنگلہ دیش کے مسلمانوں کو یتیم بنا کر تبشیر اور دوسرے اسلام دشمن اثرات کے رحم و کرم پر چھوڑ دے گی۔ لیکن یہ بات اہمیت سے خالی نہیں کہ گو مقالہ نگار نے مقالہ سے ہٹ کر الجزائر کے فیصلہ کی تائید میں پورا زور لگایا لیکن مندوبین میں سے تقریباً سبھی نے اس پر تبصرہ کرنے سے احتراز کیا۔
یہ موضوع ایسا تھا کہ پاکستان کے عروج و زوال اور اس کے اسباب پر تبصرہ کا دروازہ کھل گیا۔ ایک مصری کرم فرما کو یاد آیا کہ عرب لیگ کے ایک معزز عہدیدار نے قائد اعظم کو خبردار کیا تھا کہ پاکستان کی بنیاد کمزور ہے۔ مشرق کا سرا مغرب سے ملانا آسمان زمین کے قلابے ملانے سے کم نہیں۔ انہوں نے مشورہ دیا تھا کہ پاکستان پر اصرار کرنے سے پہلے قائد اعظم ایک مرتبہ اور غور کر لیں۔ ازہر کے علماء نے بڑے اخلاص اور دلسوزی سے پاکستان کے سانحہ کو سارے عالمِ اسلام کا سانحہ قرار دیا، لیکن اس کی ذمہ داری تمام تر پاکستان کی حکومت، انتظامیہ اور فوجی قیادت پر ڈالی۔ حکام کے بدکردار، شراب نوشی، رقص، فسق و فجور کا کھلے الفاظ میں ذکر کیا۔ استاذ محمد عبد اللہ عنان بلند پایہ مورخ ہیں، گفتگو میں وقار، افکار سلجھے ہوئے۔ بات دو ٹوک کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اپنے گناہوں اپنی تقصیروں سے کسے انکار؟ لیکن یہ تاریخی حقیقت بھی تو واشگاف ہے کہ روس اور ہندوستان (ہندو قوم اور ہندوستان کی حکومت)اسلام کے ازلی دشمن ہیں، انہوں نے مکر و حیلہ سے، سیاسی چالبازی سے ایسے حالات پیدا کیے جن سے اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل میں فائدہ اُٹھا سکیں، پھر ان دونوں نے فوجی گٹھ جوڑ کیا اور ننگی طاقت اور کھلی جارحیت کے ذریعہ ایک مسلم مملکت کے دو ٹکڑے کر کے اسے ادھ مرا کر دیا۔ جو کچھ ہوا وہ محض پیش خیمہ ہے اور بہت سے واقعات کا جو ہنور پردۂ ایام میں ہیں۔ کانفرنس ہال سے ہم سیدھے رات آٹھ بجے ہوٹل پہنچے، لاؤنج میں داخل ہوتے ہی کیا دیکھتے اور سنتے ہیں کہ ٹیلی ویژن پر افغانستان کے انقلاب کی خبریں آرہی ہیں۔ سب ساتھیوں نے سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا، میں نے جواباً انگلی سے استاذ محمد عبد اللہ عنان کی طرف اشارہ کیا۔ اس کے بعد میں پاکستان کے نام سے کترتا تھا اور دوسروں نے بھی نہ جانے کیوں پاکستان کا ذکر چھوڑ دیا۔
استاذ محمد عبد اللہ عنان کی ایک اور بات یاد آتی ہے۔ بے تکلفانہ نجی محفل تھی۔ خلیج فارسی کا ذکر آیا، ایک صاحب بولے ’خلیج عربی‘ (جمال عبد الناصر سمجھتے تھے کہ نام بدل کر وہ عرب قومیت کی جنگ جیت لیں گے)اور ایران کے ڈاکٹر شہیدی سے داد کے طالب ہوئے۔ انہوں نے کہا، قدیم عرب جغرافیہ نویس اور مورخ کیا کہتے ہیں؟ محمد عبد اللہ عنان بولے: ’’خلیج فارسی‘‘ اور ’’بحرِ عرب‘‘۔ عربی اور عجمی سب نے کہا۔ ’’بالکل صحیح‘‘۔