کتاب: محدث شمارہ 31 - صفحہ 26
ہو کر بارگاہِ نبوت میں حاضر کئے گئے اور انہیں اُسی بے رحمی کے ساتھ قتل کا حکم ہوا۔ مؤلفِ کتاب کا ارشاد ہے کہ ان کو محض ارتداد کے جرم میں قتل نہیں کیا گیا بلکہ قتل اور سرقہ کی پاداش میں ایسا ہوا لیکن اس سے یہ تو ثابت نہیں ہوتا کہ مرتد قابل تعزیر نہیں ہے بلکہ اگر کچھ ثابت ہوتا ہے تو یہ کہ ان لوگوں کو مرتد ہونے کے بعد ہی ایسے جرائم کے ارتکاب کی جرأت ہوئی۔ اگر مسلمان ہو جاتے تو بعض دوسرے مجرمانِ قتل کی طرح انہیں معاف کر دیا جاتا۔ گویا اصلی سبب ا کے قتل کا مرتد ہو جانا ہی ہے۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ بن جبل کو جب وہ یمن کی جانب روانہ ہوئے۔ حکم دیا تھا کہ جہاں کہیں بھی مرتد ملے اگر وہ توبہ نہ کرے تو اسے قتل کر دو۔ مؤلف کتاب فرماتے ہیں۔ مولانا محمد حسن سنبھلی نے ہدایہ کے حاشیہ پر اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔ (ص ۷۹)یعنی اگر یہ ضعیف نہ ہوتی تو وہ اسے صحیح تسلیم فرما لیتے لیکن اہلِ علم کا حوصلہ قابلِ داد ہے کہ اگر وہ ایسی کوئی ضعیف ترین حدیث بھی پیش فرما دیتے جس میں ارتداد کو ناقابلِ سزا جرم قرار دیا گیا ہو تو وہ تسلیم کر لیتے۔ اس طرح مؤلف نے سنن ابی داؤد کی حدیث نقل فرمائی ہے کہ ایک عورت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دے رہی تھی۔ ایک صحابی نے اسے قتل کر دیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو قصاص سے بری قرار دیا اور لکھا ہے کہ اس کے سلسلہ رواۃ میں عکرمہ اور شعبی ہیں جنہیں مشتبہ قرار دیا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ حدیث بھی ناقابلِ اعتبار ہے تاہم وہ لکھتے ہیں۔ قتل نہیں ہوئی۔ مطلب یہ کہ اگر کوئی آنحضرت کو گالی دے (نعوذ باللہ)تو وہ مرتد نہیں ہے۔ انہوں نے یہ نہیں فرمایا کہ کتاب و سنت میں اشتعال انگیزی کی سزا قتل کہاں آئی ہے اور اگر فی الواقع ملّتِ اسلامیہ میں ہر اشتعال انگیزی کے جرم کو قتل کا مستوجب قرار دیا ہے تو شاید ایسی جابر حکومت دنیا میں کوئی نہیں ہے۔ اسی طرح ایک یہودی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو السلام علیکم کی بجائے السام علیکم کہا (جو بد دعا کے الفاظ ہیں)اصحاب نے اس کے قتل کی اجازت مانگی تو رحمتِ مجسم نے اس سے منع فرمایا۔ مؤلف کتاب کو موقف یہ ہے کہ ایسی اشتعال انگیز حرکتیں بھی قابلِ معافی ہیں تو مرتد کو کیوں واجب التعزیر سمجھا جائے۔ سابقۃ الذکر حدیث میں جو موقف جناب مؤلف نے اختیار فرمایا کیا یہ اس کے متضاد نہیں؟ اشتعال انگیزی اگر موجبِ قتل جرم ہوتا تو اسے کیوں چھوڑ دیا جاتا۔ حدیث اول تو مؤلف ممدوح کے خیال کی خود تردید ہے۔ اس سے قطع نظر کوئی جناب ممدوح کو سمجھائے کہ شرع کے تمام احکام مسلمانوں پر لاگو ہوتے ہیں۔ وہ تو یہودی تھا۔ اس پر شرعی سزا خلاف عہد اور خلافِ اسلام تھی۔ ہاں اگر وہ مسلمان ہو کر اس عورت کی طرح ایسی بات کرتا تو یقیناً قتل کر دیا جاتا کیا اتنی سیدھی بات بھی محل اشتباہ ہو سکتی ہے۔ قتل مرتد کے باب میں اتنے واضح احکام اور اس کے خلاف اس ضعف استدلال کے باوجود مؤلفِ کتاب کا ارشاد ہے کہ انہوں نے کوئی حدیث ایسی نہیں دیکھی جسے اس حکم کے مستند حامیوں نے بغیر کسی تذبذب کے تسلیم کر لیا ہو (ص ۸۰)اور اس نیاز مند کا دعویٰ یہ ہے کہ اس باب میں کوئی ایک حدیث بھی ایسی نہیں ہے جس سے مرتد کے واجب القتل ہونے پر کسی بھی حق پسند کو تذبذب لاحق ہوتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ساری کتاب میں ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ہے جس سے ارتداد کا قابلِ درگزر جرم ہونا ثابت ہو۔ (باقی آئندہ)