کتاب: محدث شمارہ 31 - صفحہ 24
مرتد کی سزا قتل نہیں ہے۔ جناب مؤلف نے اس کے لئے جو استدلال فرمایا ہے وہ نہایت ہی دلسپ ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ ’’اسے واجب القتل حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لئے قراردیا تھا کہ وہ مسلمانوں کے دشمنوں سے مل کر سیاسی دشمنی کی حیثیت میں پیش ہوا تھا محض مرتد نہ تھا۔ اگر محض ارتداد کی پاداش میں حد شرعی کا مستوجب ہوتا تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا اسے پناہ دینا امکان میں نہ تھا۔ یہ امر واقعہ کہ حضرت عثمان نے اسے پناہ دی، زبردست ثبوت اس بات کا ہے کہ اس کو قتل کی سزا محض ارتداد کی وجہ سے نہیں دی گئی تھی بلکہ وہ مستحق سزا محارب مشرکین کے ساتھ شامل ہو جانے اور ان کی حوصلہ افزائی کے باعث تھا۔ ص ۷۷ مقامِ حیرت ہے کہ ایک مرتد کو اسلام کے دشمنوں میں شامل ہو جانے کے بعد جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مستوجب قتل قرار دے دیا تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا پناہ دینا جناب مؤلف کے نزدیک قابلِ فہم ہے لیکن محض جرمِ ارتداد کے مجرم کو پناہ دینا ناقابلِ فہم ہے ور آنحالیکہ خود جناب مؤلف نے اس کے جرائم کی فہرست میں ارتداد کے علاوہ مشرکینِ قریش سے ساز باز کرنے، کلامِ الٰہی میں تحریف کرنے اور وحیِ الٰہی کے ساتھ تمسخر کا ذکر فرمایا ہے۔ ص ۷۶،۷۷ میرے نزدیک تو یہ منطق ناقابل فہم ہے کہ وہ اگر محض مرتد ہوتا تو حضرت عثمان اسے پناہ نہ دیتے۔ لیکن چونکہ اس نے دوسرے سنگین تر جرائم کا ارتکاب کیا تھا اور حضور نے اس کے قتل کا حکم دیا تھا۔ اس لئے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے پناہ دی۔ اس عجیب و غریب صورت حال کو زبردست ثبوت کہنا عجیب ہے۔ مجھے ہرگز یقین نہیں کہ ایسی اوٹ پٹانگ بات جناب مؤلف کے ذہن کی پیداوار ہو یقیناً یہ مسٹر پرویز جیسے گنجلک ذہن کی تخلیق ہو سکتی ہے۔ مؤلف نے مزید فرمایا ہے کہ اس سلسلہ میں دس بارہ اشخاص اور بھی مستوجب قتل قرار دیئے گئے تھے۔ اور وہ سب کے سب ایسے تھے جنہوں نے مسلمانوں پر مظالم ڈھائے اور ان کے خلاف جنگ کی تھی۔ اس لئے انہیں مستوجبِ قتل قرار دیا گیا تھا۔ آگے فرمایا ہے کہ ان میں سے صرف چار کو قتل کیا گیا اور باقی مجرموں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معاف فرما دیا۔ (ص ۷۸) اس تحقیق کے بعد کاش وہ یہ بھی بتا دیتے کہ جن کو معاف کیا گیا۔ انہیں کس حسن کارکردگی کے صلہ میں معاف فرما دیا اور جو قتل ہوئے ان کا جرم کیا تھا؟ جو ناقابلِ معافی تصور فرمایا گیا۔ میں نہیں سمجھتا کہ مؤلف محقق کو اس کا علم نہ ہو شاید کسی مصلحت سے انہوں نے بیان کرنا مناسب خیال نہیں فرمایا۔ تاہم علامہ شبلی نے ان کی تفصیل (بحوالہ زرقانی و ابن ہشام یوں بیان فرمائی ہے۔ (اواخر بیان فتح مکہ) عام روایت کی رو سے جن دس شخصوں کی سزائے کی سزائے موت کا اعلان کیا گیا تھا ان کا حال یہ ہے کہ وہ شدید مجرم تھے۔ تاہم سات اشخاص خلوص سے ایمان لائے اور ان کو معافی دے دی گئی۔ صرف چار شخص قتل ہوئے