کتاب: محدث شمارہ 31 - صفحہ 23
میں اس کے اس جرم کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ مرتدہ عورت کے اگرچہ قتل سے منع کیا گیا ہے تاہم اسے سخت قید و بند میں رکھے جانے کا حکم ہے۔ جومؤلف کی رائے کے برخلاف ہے کیونکہ موصوف دنیا میں کسی سزا کے قائل ہی نہیں۔
یہ امر بجائے خود قابلِ غور ہے کہ مرتد کے واجب القتل ہونے کا جہاں کہیں بھی حکم آیا ہے۔ ہر جگہ اس کا سبب ارتداد بتایا گیا ہے۔ جس طرح قاتل کی سزا قتل بوجہ ارتکابِ قتل ہے اور زانیٔ مصن کی سزا قتل بوجہ ارتکاب زنا ہے۔ اسی طرح مرتد کی سزا قتل بوجہ ارتکابِ ارتداد ہے۔ اس میں کسی جگہ حربی ہونے کا شاخسانہ موجود نہیں ہے۔ لہٰذا حکم قتل مرتد کے معنے لغۃً، اصطلاحًا، شرعاً اور دیانۃً اس کے سوا کچھ اور ہو ہی نہیں سکتے کہ ارتداد جرم مستوجب سزائے موت ہے۔
جرم ارتداد کی سنجیدگی اور شدت کا ثبوت حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت کردہ حدیث متعلق ابن سرح سے بھی ہوتی ہے۔ مؤلف کتاب نے اس حدیث کو بھی انوکھی تاویل و تعبیر کا ہدف بنایا ہے۔
اس واقعہ کا خلاصہ جو روایت حضرت عبد اللہ بن عباس و روایت حضرت سعد بن وقاص میں مذکور ہے، یہ ہے کہ:
’’ایک شخص عبد اللہ بن مسرح بارگاہِ رسالت کی سیکرٹری شپ سے ہٹ کر کفار سے جا ملا تھا۔ اس پر حضور نے اس کے قتل کا حکم دیا لیکن فتح مکہ کے روز اس نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس پناہ لی۔ حضرت ممدوح اسے حضور کی خدمت میں لے آئے اور درخواست کی کہ اس کی بیعت قبول فرمائی جائے۔ حضور نے اسے دیکھا اور خاموش رہے۔ دوسری بار درخواست کرنے پر بھی چپ رہے۔ تیسری بار درخواست پر اس کی بیعت قبول فرمائی گئی۔ تاہم سب سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ میں نے جب اس کی بیعت سے ہاتھ روک لیا تھا تو کیا تم میں سے کوئی مرد رشید ایسا نہ تھا جو اسے قتل کر دیتا۔ لوگوں نے کہا کہ حضور نے اشارہ فرما دیا ہوتا۔ ارشاد ہوا کہ نبی کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ آنکھوں کی خیانت کرے۔‘‘ (ابو داؤد، کتاب الحدود، باب من ارتد)
علمائے محدثین نے اس حدیث کی کئی زاویہ ہائے نظر سے تشریح فرمائی ہے لیکن جس امر پر سب کا اتفاق ہے وہ یہ ہے کہ ابن سرح جرمِ ارتداد کی پاداش میں قتل کا مستوجب ہو گیا تھا۔ لیکن اس نے توبہ کرلی اور پھر مسلمان ہو گیا۔ اس لئے قتل سے بچ گیا۔ تاہم حدیث سے عیاں ہے کہ اگر اسے قتل ہی کر دیا جاتا تو قابل باز پرس نہ تھا۔ چنانچہ بعض علماء بشمول ابن ہمام کا یہی مسلک ہے کہ مرتد کو توبہ وغیرہ کا موقع دینا کوئی امر مستحب نہیں ہے اسے استتابہ کہتے ہیں ایسا کیا بھی جا سکتا ہے اور نہ بھی کیا جائے تو مضائقہ نہیں ہے۔
یہ نیاز مند اس بات کے سمجھنے سے قاصر ہے کہ آخر اس حدیث سے اس موقف کو کیا تقویت پہنچتی ہے کہ