کتاب: محدث شمارہ 31 - صفحہ 22
قتلِ مرتدہ کے حق میں علامہ سرخسی حنفی کے جو دلائل نقل کئے ہیں ان میں دو عورتوں ام مروان اور ام فرقہ کے حکمِ قتل کے علاوہ اس حدیث سے بھی استدلال فرمایا ہے جس میں ہر شخص کے قتل کا حکم ہے جو دین سے پھر جائے اور لکھا ہے کہ موجبِ قتل صرف جرمِ ارتداد ہے۔ خواہ وہ مرد سے سرزد ہو یا عورت سے اور اس کی تائید میں شارح بخاری علامہ عینی کے دلائل بھی پیش کئے گئے ہیں جن میں حضرت عبد اللہ بن عمر اور زہری اور ابراہیم نخعی کی رائے بوضاحت درج ہے کہ مرتد مرد ہو یا عورت۔ اگر ایمان نہ لائے تو اسے قتل کر دیا جائے گا اور اس کی تائید میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ارشاد اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ایک مرتدہ عورت کے قتل کئے جانے کا ذکر ہے اور بتایا ہے کہ فلم ینکر ذالک علیه احد کہ ایک فرد متنفس بھی ایسا نہیں جس نے اس حکم سے انکار کیا ہو اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث مروی ہے: ایما امرأۃ ارتدت عن الاسلام فارعھا فان عادت والا فاضرب عنقھا یعنی جو عورت اسلام سے پھر جائے اسے مسلمان ہونے کی دعوت دی جائے اگر اسلام قبول کر لے تو بہتر ورنہ اس کی گردن اڑا دی جائے۔ اس کے مقابلہ میں بعض احادیث اور تعاملِ صحابہ سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ مرتدہ عورت کو قتل کی بجائے قید و بند کا حکم ہے جس کی بنا پر انہیں قتل کرنا منع ہے اور ان اصحاب کی دلیل یہ ہے کہ عورتوں کو قتل کی ممانعت ہے۔ چنانچہ خود جناب مؤلف نے اس حدیث کا ترجمہ درج فرمایا ہے کہ ’’اگر کوئی عورت مرتد ہو جائے تو اسے قتل نہ کرو (ص ۷۲)اس حدیث سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ اگر مرتد مرد ہو تو اسے قتل کر دیا جائے ورنہ عورت کے قید کی کیا ضرورت تھی۔ رہا عورت مرتدہ کا حکم اس کا فیصلہ متفقہ طور پر یہی ہے کہ وہ بہرحال مجرم ضرور ہے۔ سزا کے باب میں وہ رامیں ہیں کہ اسے قتل کیا جائے یا سخت قید و بند میں رکھا جائے۔ لیکن اس باب میں بھی سب متفق ہیں کہ مرتدہ عورت بھی اگر تشدد یا فساد پر آمادہ ہو تو اسے قتل کیا جائے گا۔ غرض یہ کوئی بھی نہیں کہتا کہ کسی صورت _________________________________ ۱؎ حدیث بالا کے مفہوم مخالف سےمرتد مرد کاواجب القتل ثابت کرنا اگرچہ الزاماًدرست ہے لیکن واضح یہ ہے کہ مرتد کو قتل کو قتل کے حکم سے مستثنیٰ قرار دینے والی کوئی حدیث صحیح نہیں بلکہ سخت ضعیف ہیں اور حنفیہ میں سے جو لوگ مرتد کے قتل کی بجائے اسے کسی دوسری سزاکامستوجب قرار دیتےہیں بظاہر اس کی وجہ صرف تقلید ہے کیونکہ عورتوں کے قتل سے اجتناب والی حدیث کے مختلف طرق سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ یہ حدیث کسی مرتد کے حکم سے متعلق ہے ہی نہیں بلکہ ان حربی عورتوں سے متعلق ہے جو لڑائی میں حصہ نہیں لیتی۔ دراصل جناب ایس اےرحمٰن صاحب نے قتل کے حکم کو مرتد مرد سے مخصوص کرنیوالوں کی تقلیدی مجبوری سےفائدہ اٹھانے کی کوشش فرمائی ہے ۔ مرتدہ عورت کے بارے میں قید کا حکم مرجوح ہونے کے باوجود موصوف کے موقف کی تائید نہیں کرتا جیسا کہ عباسی صاحب کی اگلی عبارت سے واضح ہے ۔ ۱۲۔ مدیر