کتاب: محدث شمارہ 31 - صفحہ 21
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے بھی ملاحظہ فرمائیے:
٭ اعلمھم بالحلال والحرام معاذ
یعنی حلال و حرام کے مسائل سب سے زیادہ جاننے والے معاذ رضی اللہ عنہ ہیں۔
٭ یجیٔ معاذ یوم القيامة امام العلماء بين يدي العلماء
یعنی قیامت کے روز حضرت معاذ تمام علماء کے امام کی حیثیت سے علماء کے آگے آگے ہونگے۔
٭ خدوا القراٰن من اربعة من ابن مسعود وابّي ومعاذ بن جبل وسالم
یعنی قرآن سمجھنا چاہو تو چار اصحاب سے سمجھو۔ ابن مسعود، ابی، معاذ بن جبل اور سالم سے۔
٭ قد سن لکم ھذا معاذ فاصنعوا (مسند احمد ص ۲۴)
یعنی یہ طریق کار معاذ نے بتایا ہے بس اس پر عمل کرو۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی اس غلطی کا سبب بھی جناب مؤلف نے یہ بیان فرمایا ہے کہ معاذ کے ذہن میں خدا و رسول کے واضح احکام نہ تھے۔ (ص ۷۲)
گویا غیر واضح ذہن کی بنا پر انہوں نے اس پر یہودی کے قتل پر اصرار کیا لیکن جناب مؤلف نے اس امر پر غور نہ فرمایا کہ اس قصور میں (معاذ اللہ)نہ صرف حضرت معاذ رضی اللہ عنہ بلکہ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بھی ملوث تھے کہ انہوں نے اس یہودی کو سزائے موت دی بلکہ اس وقت کے جملہ حاضرین اور تمام صحابہ جنہوں نے بعد میں اس پر کوئی اعتراض کبھی نہیں کیا بلکہ خود ذاتِ مبارک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جن کے عہد میں یہ واقعہ پیش آیا کوئی اعتراض نہیں کیا تو کیا ان سب کے ذہن میں احکاماتِ خدا و رسول واضح نہ تھے؟
خدا اور رسول کے نزدیک مرتد کے واجب القتل ہونے کا ثبوت اس سے زیادہ واضح اور ممکن نہیں۔
اس کے بعد مولف نے ان دو احادیث کو بھی محلِ مقید بتایا ہے جن میں بتایا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کو ارتداد کے جرم میں قتل کا حکم دیا۔ جناب مؤلف کی تحقیق اندریں باب یہ ہے کہ ان احادیث میں سے ایک حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اور دوسری حضرت جابر بن۱؎ عبد اللہ رضی اللہ عنہماسے مروی ہے اور دونوں کی روایات میں بعض ایسے اور ساقط نام ہیں جن کو قابلِ اعتبار نہیں سمجھا گیا۔ لہٰذا یہ حدیث مشکوک ہے اور مبہم بھی ہے کیونکہ اس میں اس عورت مقتولہ کی تفصیل نہیں بتائی گئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حدیث سے یہ ظاہر نہیں ہے کہ وہ امن پسند مرتدہ تھی یا محاربہ مرتدہ۔ باوجود اس کے انہوں نے یہ یقین کر لیا کہ وہ ضرور محاربہ تھی ورنہ قتل نہ کی جاتی۔ بس غلط طرزِ استدلال کو مصادرۃً علی المطلوب کہتے ہیں اور فن مظاہرہ میں اس کو حماقت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ احادیث دوسرے احکام و احادیثِ صحیحہ کی تائید کرتی ہیں۔ چنانچہ علامہ سمرائی رحمہ اللہ نے