کتاب: محدث شمارہ 31 - صفحہ 20
کی سزا کا ذکر نہ ہونا صرف قرآن میں بتایا ہے ورنہ وہ یہ کہتے ہیں کہ معاذ بن جبل نے کتاب و سنت دونوں کی بنا پر قتل کا مطالبہ کیا تھا اور دونوں میں کہیں بھی قتل مرتد کی سزا مذکور نہیں ہے۔ اس سے بظاہر یہ بھی مترشح ہوتا ہے کہ مؤلف موصوف نے محارب اللہ کا مطلب یہ سمجھا ہے کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو اسلام کے خ رحمہ اللہ اف تلوار اُٹھائے یعنی حربی ہو۔ حالانکہ محارب اللہ والرسول کے معنے خدا اور رسول کے احکام کے خلاف کرنے والے کے ہیں۔ اس زمرہ میں فسق و فجور، رہزنی و ارتداد و بدکاری وغیرہ سب شامل ہیں اور سب کو محدثین نے محاربین باللہ سے تعبیر فرمایا ہے اور قرآن حکیم میں جہاں جہاں بھی حرب اللہ والرسول کا لفظ آیا ہے۔ غالباً ہر جگہ معصیت مراد ہے۔ کہیں بھی جنگ مراد نہیں ہے۔ چنانچہ آیت ﴿ إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ﴾ الاية (مائدہ ۳۳)کے تحت صاحب تفسیر ماجدی نے لکھا ہے کہ: ’’محاربہ سے مراد معصیت اور مخالفت یا اللہ اور اس کے رسول کے قانون کو توڑنا ہے۔‘‘ (بحوالہ لغات لسان العرب و تاج العروس) اور لکھا ہے کہ: ’’اہل تفسیر تو سب اس طرف گئے ہیں نیز محدثین کی بھی یہی رائے ہے۔ یعنی کسی نے بھی محاربین اللہ والرسول سے حربی مراد نہیں لیا۔‘‘ اب کیسی غلطی ہو گی۔ اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ صرف ایسے مرتدین مستوجب سزا ہوں جو جرائم رہزنی، نہب و قتل کا ارتکاب کریں۔ اس خیال کی حماقت کا بیان کرتے ہوئے علامہ جصاص فرماتے ہیں کہ: ’’جرم مسلمان کرے تواس کی بھی یہی سزاہے ۔‘‘ قطع نظر اس کے کہ حربیوں کو قتل کرنے کا حکم کہیں بھی نہیں ہے۔ ان سے مقاتلہ کا حکم ہے جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے۔ غرض اس آیت کا مفہوم بھی جو مؤلف کتاب نے بتایا، خود ساختہ اور افسوسناک معنوی تحریف ہے۔ ظاہر ہے کہ اس یہودی مرتد کے باب میں ان تمام قیاس آرائیوں کی بنا محض یہ ہے کہ جناب مؤلف کسی صورت نہیں چاہتے کہ مرتد کے لئے سزائے موت کا حکم ثابت ہو۔ اس سلسلہ میں ایک نہایت حیرت انگیز جرأت یہ بھی فرمای کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ بن جبل کا یہ فیصلہ محض ان کا ذاتی اجتہاد تھا۔ اور شاہ ولی اللہ نے بدلائل یہ ثابت کیا ہے کہ خواہ کوئی کتنی ہی بڑی شخصیت ہو (بجز پیغمبررِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے)ضروری نہیں کہ اس کے اجتہاد کو بہرحال درست سمجھا جائے اور بحوالہ سید الشریف جرجانی بتایا ہے کہ صحابہ کی ہر بات قابلِ تسلیم نہیں ہے۔ یعنی حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی بات قابلِ تسلیم نہیں ہے۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے باب میں جناب جسٹس رحمٰن کی اس رائے کے مقابلہ میں