کتاب: محدث شمارہ 31 - صفحہ 19
مرتد ہو جائے۔ پھر جب اسلام سے نکل کر مشرکین میں جا ملے تو اس کا خون حلال ہو جائے گا۔
مولف کتاب نے ان احادیث کے الفاظ میں معمولی تفاوت کو بہانہ بنا کر، حالانکہ سب کا مفہوم ایک ہے۔ تمام احادیث کو ساقط الاعتماد سمجھ لیا ہے۔ ان میں سے کوئی حدیث یہ ظاہر نہیں کرتی کہ مرتد کی کوئی سزا نہیں ہے۔ اس کی باتوں پر توجہ نہ دی جائے۔ ان احادیث کے علاوہ ایک حدیث اور ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا اور پھر معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بھی وہاں بھیجے گئے۔ جب وہ یمن پہنچے تو حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے ان کو خوش آمدید کہا اور تشریف رکھنے کی خواہش کی لیکن اس وقت ایک یہودی پیش ہوا جو مسلمان ہو کر پھر یہودی ہو گیا تھا۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نہیں بیٹھوں گا جب تک کہ خدا و رسول کے احکامات کے بوجب پہلے اسے قتل نہ کیا جائے۔ چنانچہ اس پر عمل کیا گیا۔ تب حضرت معاذ رضی اللہ عنہ وہاں بیٹھے۔
اس واضح حدیث کی تاویل فاضل مؤلف کے علاوہ اور کسی کے بس کی بات نہ تھی۔ چنانچہ انہوں نے فرمایا کہ بہت ممکن ہے کہ وہ یہودی یمن کے اسوہ عنسی مدعیٔ نبوت کی حمایت میں داخل ہو گیا ہو۔ اسود عنسی وہ شخص ہے جس نے ایک فوج مسلمانوں کے خلاف تیار کی تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعین فرمودہ دو اصحاب عمرو بن حزم اور خالد بن سعید کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا تھا۔
دلیل کی قوت ملاحظہ فرمائیے کہ شاید ایسا ہوا ہو، اس لئے قتل کر دیا گیا۔ ظاہر ہے کہ اس حدیث میں واضح طور پر مذکور ہے کہ اس کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ مسلمان ہو کر پھر اسلام سے پھر گیا تھا۔ اگر دیگر کوئی قصور مستوجبِ قتل ہوتا جو جناب مؤلف کے اپنے ذہن کی اختراع ہے تو لازم تھا کہ اس حدیث میں اس کی نشاندہی ہوتی۔ ورنہ ممکنہ نہ تھا کہ ایک شخص کو مستوجبِ قتل قرار دیا جائے اور اس کا وہ جرم نہ بتایا جائے جس کی بنا پر اسے قتل کرنا واجب ہو۔ بلکہ وہ جرم بتایا جائے جو جرم ہی نہیں ہے۔ قطع نظر اس سے کہ یہ ہرگز ضروری نہیں ہے کہ محارب قیدی کو قتل ہی کیا جائے۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کا اصرار صرف ایک یہی قتل ہے۔
اس سلسلہ میں جناب مؤلّف کی یہ دلیل بڑی معنی خیز ہے کہ حضرت معاذ بن جبل نے اس مرتد یہودی کے قتل کا مطالبہ اللہ اور رسول دونوں کے حکم کے بموجب کیا تھا۔ چونکہ قرآن میں مرتد کے لئے قتل کی سزا کہیں بھی موجود نہیں ہے بلکہ محارب اللہ کے لئے قتل کا حکم ہے۔ اس لئے ضرور وہ یہودی محارب تھا۔
اس قول کا تجزیہ کیا جائے تو عیاں ہو گا کہ مؤلف کے نزدیک قرآن میں تو مرتد کی سزا نہیں ہے لیکن حدیث میں ہے۔ مؤلف کے لئے تحت شعوری اعتراف سے انکار مشکل ہے کیوں کہ انہوں نے مرتد