کتاب: محدث شمارہ 31 - صفحہ 18
باعث جو اس حدیث کا پس منظر ہیں یہ بات کہہ دی گئی تھی۔ در پردہ یہ ان لوگوں کے خلاف جو اس حدیث سے مرتد کا حکم واضح طور پر اخذ فرماتے ہیں۔ الزامات کی ایک فہرست ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ بلاشہ حدیث کے یہی معنے ہیں کہ مرتد کو قتل کیا جائے گا۔ اس میں اقتلوا کی وہ تاویل نہیں چل سکتی کیونکہ یہ لفظ قتل نہیں بلکہ ضربِ عنق (گردن کاٹ دینا)ہے تاہم محدثین نے اس کے پس منظر کو نہیں دیکھا اور اس حدیث کی تاویل کی جا سکتی ہے کہ مرتد کو صرف اس صورت میں قتل کیا جائے گا جبکہ وہ حربی ہو جائے۔ کیونکہ الفاظِ احادیث میں اختلاف ہے (یعنی ایک میں قتل کرنے کا حکم ہے اور دوسری میں گردن کاٹنے کا)لہٰذا دونوں غلط ہیں اس لئے اسے چھوڑ دیا جائے گا۔ استدلال کی اس قوت کا مظاہرہ فرمانے کے بعد دوسری احادیث کے بارے میں مصنف موصوف کا رویہ بھی فروتر ہے (ص ۶۶-۶۷)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ایسے کسی شخص کو جو توحیدِ الٰہی اور میری رسالت کا اعتراف کرے، قتل نہیں کیا جا سکتا سوا ان تین صورتوں کے کہ اس نے کسی کو ناحق قتل کیا ہو، یا شادی شدہ ہونے کے باوجود ارتکابِ بدکاری کرے یا یہ کہ وہ اپنے دین سے پھر کر اپنی جماعت سے الگ ہو جائے۔ (بخاری باب النفس بالنفس وترمذی)
پھر بخاری میں ایک اور حدیث باب القسامہ میں یوں آئی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تینوں صورتوں کے علاوہ کسی پر قتل کی شرعی سزا نافذ نہیں فرمائی۔ یعنی وہ جس نے ناحق قتل کا ارتکاب یا ہو یا محصن ہو کر زنا کیا ہو یا خدا اور رسول سے جنگ کر رہا ہو کہ اسلام سے پھر گیا ہو۔ ایسی ہی ایک حدیث سنن نسائی میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے جس میں واجب القتل شخص کے ذکر میں الفاظ یوں ہیں کہ تیسرا وہ جو مسلمان ہونے کے بعد پھر مرتد ہو جائے۔ سنن نسائی کی ایک حدیث جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے اس میں تیسری قسم کے واجب القتل شخص کا ذکر اسی طرح ہے کہ جو شخص اسلام لانے کے بعد مرتد ہو جائے۔ پھر سنن نسائی میں ایک اور حدیث میں مرتد کو مسلمانوں کا شمن بتایا گیا ہے۔ ابو داؤد کے باب الحکم فی من ارتد میں تیسرے زمرہ کے واجب القتل اشخاص کی بابت بتایا گیا ہے کہ جو لوگ محاربین باللہ والرسول ہیں انہیں یا تو قتل کر دیا جائے گا یا سولی دے دی جائے گی یا جلا وطن کر دیا جائے گا۔ یہ الفاظ سورہ مائدہ آیت نمبر ۳۰ کا ہی مفہوم ہیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے اندریں باب دو احادیث مروی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ان تین صورتوں کے علاوہ کسی مسلمان کا قتل جائز نہیں ہے۔ وہ شخص جو مسلمان ہو کر مرتد ہو جائے یا شادی شدہ ہو کر مرتکبِ زنا ہو یا کسی شخص کو ناحق قتل کر دے (باب ما یحل بہ دم المسلم)اسی باب کی دوسری حدیث حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ ہے جس میں آخری مستوجب القتل کی بابت یہ الفاظ ہیں کہ جو شخص ایمان لانے کے بعد