کتاب: محدث شمارہ 31 - صفحہ 17
حدیث کو رد کر دیا جائے (مطلب یہ ہے کہ کاش منقطع ہونے کے علاوہ اور وجہ کوئی ہوتی کہ اسے رد کیا جا سکتا)تاہم وہ فرماتے ہیں کہ اس کی تاویل کی جا سکتی ہے (جو نتیجۃً اس کے رد کرنے ہی کے برابر ہو گی)کہ اس میں لفظ اقتلوہ جو آیا ہے اس کو حقیقی معنوں میں نہ لیا جائے بلکہ اس کے مجازی معنے مراد ہوں یعنی ایسے شخص کو گمراہ سمجھ کر قتل کر دینا نہیں ہے بلکہ یہ معنے لیے جا سکتے ہیں کہ ایسے شخص کو گمراہ سمجھ لو اور جو کہتا ہے اس کی طرف توجہ نہ دو۔ اور دلائل کے سلسلہ میں انہوں نے بتایا ہے کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے قبیلہ خزرج کے سردار سعد رضی اللہ عنہ کی بابت جو خلافت کا امیدوار تھا فرمایا کہ اقتلوا السعد اقتله اللّٰہ یعنی اس کو مردہ تصور کر لو اور اس کی بات کی طرف توجہ نہ دو۔ مطلب یہ ہے کہ اسی طرح من بدل دینه فاقتلوہ میں بھی یہ معنے ہیں کہ جو شخص اپنے دین سے پھر جائے اسے مردہ تصور کر لو اور اس کی جانب توجہ نہ دو یعنی اسے مجرم نہ سمجھو۔ جو کہتا ہے کہنے دو۔ قطع نظر اس کے کہ حضرت عمر کا یہ واقعہ میری نظر سے نہیں گزرا۔ جناب مؤلف کو خود ہی اپنی اس تاویل پر اطمینان نہ تھا۔ چنانچہ انہوں نے فرمایا ہے کہ یہاں تو خیز ہے یہ تاویل کر بھی لی جائے۔ لیکن امام مالک کی مؤطا کے بارے ’’من ارتد عن الاسلام‘‘ میں لفظ قتل نہیں ہے بلکہ گلہ کاٹ دینا آیا ہے۔ من غیر دینه فاضربوا عنقه یعنی جو شخص اپنے دین سے پھر جائے اس کا گلا کاٹ دو، میں یہ تاویل نہیں چلے گی۔ تاہم چونکہ سزائے مرتد کی نفی مطلوب تھی اس لئے آگے چل کر انہوں نے بتایا ہے کہ خود امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی تشریح اس حدیث کی بابت یہ ہے کہ جو مسلمان مرتد ہو کر اپنا مذہب چھپا رکھے اور اسلام کا اظہار کرے تو اس کے اس نفاق کا راز کھل جانے پر توبہ کی پرواہ کیے بغیر اسے قتل کر دینا چاہئے۔
مؤلف ممدوح کو امام مالک کے اس موقف پر اعتراض ہے۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ امام مالک کے اس برتر مقام، ارتقاء اور علم کا احترام کرتے ہوئے بھی ان پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ منافقین کے بارے میں ان کا یہ فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے خلاف ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ امام صاحب نے جو قتل کا حکم دیا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق کے خلاف ہے۔ مقامِ عبرت ہے کہ بعض اوقات انسان اپنی ہٹ دھرمی پر آکر کس طرح حقیقت کی طرف سے آنکھ بند کر لیتا ہے۔ امام صاحب نے تو اس منافق کے قتل کو جرم ارتداد کے ثابت ہونے پر موقوف رکھا ہے۔ چنانچہ خود ہی مؤلف کتاب نے جو ترجمہ کیا اس میں یہ الفاظ ہیں:
On proof of his guilt he shall be stained.
یعنی جب اس کا جرم ارتداد ثابت ہو جائے تو اسے قتل کیا جائے۔ لیکن مؤلف کتاب یہ سمجھے کہ منافق کو قتل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
مؤلف موصوف امام مالک پر خلاف پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم حکم دینے کا الزام جڑنے کے بعد ص ۶۵ بھی اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ حدیث کے الفاظ مشتبہ ہیں۔ لوگوں کو صحیح یاد نہ رہنے اور ان حالات کو نظر انداز کرنے کے